قلعہ معلی میں اندرونی سیاست زوروں پر تھی

قسط نمبر 253
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
حویلی کے اندر چار چھ مہینے کے قیام نے نواب مرزا داغ پر اندرونی سیاست کے کئی پہلو روشن کر دیئے تھے۔ مرزا دارا بخت ولی عہد بہادر اور مرزا فخرو بہادر میں انس برادرانہ بہت نہ تھا۔ ولی عہد بہادر کوشاں رہتے تھے کہ بادشاہ سلامت کے کان مرزا فخرو کے خلاف بھرے جاتے رہیں۔ اعلیٰ حضرت کو یقین آئے نہ آئے، لیکن مرزا فخرو بہادر کے عیوب و نقائص، وہ حقیقی ہوں یا فرضی، حضور ظل سبحانی کے سامنے اشارتاً ہی سہی لیکن بیان ہوتے رہیں۔ یہ کام کچھ آسان اس لئے بھی تھا کہ اعلیٰ حضرت بھی کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر مرزا فتح الملک بہادر سے کچھ بہت خوش نہ رہتے تھے۔ ادھر مرزا کیومرث بہادر کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ خود کو تیموری وراثت کا سچا حقدار گردانتے ہیں اور یہ بات وہ صاحبان عالیشان کے گوش مبارک تک کئی بار پہنچا چکے ہیں۔ مرزا شاہرخ بہادر کو سیر و شکار سے دلچسپی زیادہ تھی۔ وہ مرنجاں مرنج قسم کے نیک طینت شاہزادے تھے۔ انہیں بظاہر اس بات کی شکایت نہ تھی کہ وہ وزیر اعظم اور مختار عام تو ہیں لیکن ولی عہد دوئم کا عہدہ ان سے چھوٹے بھائی مرزا کیومرث کے پاس ہے۔ مرزا شاہرخ کی والدہ البتہ اس بات کی متمنی تھیں کہ اگر خدا نہ کردہ دارا بخت بہادر کو کچھ ہوگیا تو ولی عہدی کے لئے میرے بیٹے کا خیال رکھا جائے۔
لیکن مرزا شاہرخ کی والدہ معمولی نواب کی بیٹی تھیں، ان کا حلقہ اثر کچھ نہ تھا۔ ان کے برخلاف نواب زینت محل بار بار اس بات پر زور دیتی تھیں کہ وہ حضور پر نور کی صرف چہیتی ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کے باپ نواب احمد قلی خان بڑے عالی خاندان تھے اور احمد شاہ ابدالی درانی کے براہ راست اخلاف میں تھے۔ مشہور تھا کہ نواب زینت محل کا دعویٰ تھا کہ کیا مرزا دارا بخت بہادر اور کیا کوئی اور، ولی عہدی اور پھر بادشاہی تو ان کے بیٹے مرزا جواں بخت ہی کو سزا ہے۔ اعلیٰ حضرت اپنے تمام تدبر و تمکین کے باوجود نواب زینت محل کی کسی بات سے اختلاف نہ کرتے تھے۔ یہی فرماتے کہ جب وقت آئے گا تو دیکھیں گے، ابھی نواب گورنر جنرل بہادر کی خدمت میں کچھ لکھنا بے معنی ہے۔ مرزا جواں بخت مشکل سے پانچ برس کے ہیں اور مرزا شبو نام خدا جوان العمر اور بالکل صحت مند ہیں۔ اور بادشاہی کا بھی کچھ ٹھکانا نہیں۔ ان باتوں کے باوجود نواب زینت محل اپنے بیٹے کے لئے دربار انگریز میں ریشہ دوانیاں کرتی رہتی تھیں اور جب سے انہوں نے سنا تھا کہ طامس متکف صاحب کلاں بہادر کا کوئی رجحان مرزا جواں بخت بہادر کی طرف نہیں ہے، وہ صاحب کلاں بہادر کی جانی دشمن ہوگئی تھیں اور انہیں اٹھتے بیٹھتے کوسنے دیا کرتی تھیں۔
اگر قلعے کے نسق و انصرام کے اسرار کی پوری تھاہ نواب مرزا خان کو نہ مل سکی تو بادشاہ ذی جاہ کے کرم اور مہربانیوں کی بھی، جو بادشاہ سلامت نے نواب مرزا پر ارزانی فرمائی تھیں، ان کی بھی تھاہ نواب مرزا کو نہ مل سکی۔ حضرت خلافت پناہی نے نواب مرزا خان کو شہسواری، بانک اور تیر اندازی میں اپنا شاگرد مقرر کیا اور پوری توجہ سے اس کے تعلم کا اہتمام کیا۔ فن شعر میں استاد ذوق کی شاگردی کے علاوہ بادشاہ بھی داغ کو کبھی کبھی بلوا کر اس سے کلام سنتے اور کبھی کبھی اصلاح یا ترمیم عنایت فرماتے، جسے داغ بصد تسلیم و رضا قبول کرلیتا۔ قلعے کی شعری محفلوں اور شہر میں بھی کبھی استاد ذوق کے آستانے پر، کبھی نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کی حویلی پر شعر خوانی کی محفلوں میں داغ کی شرکت ضروری سمجھی جانے لگی تھی۔ اس کا کچھ سبب تو خود داغ کے کلام کی خوبی تھی۔ لیکن کچھ دخل اس میں بادشاہ سلامت کی نظر مہر و کرم کا بھی تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ پہلا باضابطہ مشاعرہ جو داغ نے پڑھا، وہ قلعے میں اس کی آمد کے بعد 1845ء کے ربع اول میں نواب مصطفیٰ خان صاحب شیفتہ کے یہاں منعقد ہوا تھا۔ اس مشاعرے میں داغ کا مطلع بہت مقبول ہوا تھا
شررو برق نہیں شعلہ و سیماب نہیں
کس لئے پھر یہ ٹھہرتا دل بیتاب نہیں
مضمون تو پیش پا افتادہ تھا، لیکن زبان کی صفائی اور کلام کی روانی لائق داد تھی۔ شہرت اور پھر نو عمری کی شہرت، استاد ذوق اور مرزا فتح الملک بہادر تو خوش ہوئے ہی تھے، مرزا غالب اور حکیم مومن خان صاحب بھی تعریفیں کرتے تھے کہ گلزار شعر ہندی میں ایک نیا گلبن سر نکال کر پرانے گلابوں سے چشمکیں کر رہا ہے۔ دیکھیں اس کی ہمت عالی اسے کہاں تک لے جاتی ہے۔ ان استادوں کو اب تک جو رنج تھا کہ ہمارے بعد کوئی نظر نہیں آتا، جو سرزمین ریختہ کی آبیاری کرے، اب وہ رنج دور ہونے لگا تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment