نذر الاسلام چودھری
بھارتی ریاست اتر پردیش کا انتہا پسند وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ اگلے برس ہونے والے الیکشن میں کامیابی کیلئے ہندو مسلم فسادات کرانے پر تُل گیا۔ اتر پردیش کے معروف ضلع بلند شہر کے ہزاروں ہندوئوں نے یوگی کہ شہ پر مقامی جامع مسجد کی انتظامیہ اور مسلمانوں کو دھمکی دی ہے کہ وہ مسجد کا زیر تعمیر ستر فٹ بلند مینار گرا دیں۔ اگر انہوں نے یہ مینار نہ گرایا تو ہندو اس جامع مسجد کو گرا کر شہید کر دیں گے۔ امر گڑھ گائوں/ بلند شہر میں موجود مقامی صحافی گوپی ناتھ کے مطابق ضلعی کلکٹر، ڈپٹی کمشنر او ر پولیس ایس ایس پی کا ماننا ہے کہ تنازع سنگین ہو چکا ہے اور ضلع میں ہندو مسلم فساد کا موجب بن سکتا ہے۔ جس میں سینکڑوں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ بلند شہر کے گائوں امر گڑھ کا موجودہ ماحول انتہائی کشیدہ ہے اور مقامی مسلمانوں نے تسلیم کیا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ 2019ء کے عام انتخابات میں ہندو ووٹ کیلئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی پلاننگ پر عمل کر رہا ہے، جس کی وجہ سے مقامی ہندوئوں نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور مسلمانوں کو ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے کہ امر گڑھ کی جامع مسجد کا زیر تعمیر مینار خود سے گرا دیں یا مسجد کو ہندوئوں کے ہاتھوں ڈھانے کیلئے تیار رہیں۔ گائوں کی عملداری میں شامل جہاں گیر آباد پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او، ایس کے جتیندر تیواڑی نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں تسلیم ہے کہ ہندوئوں نے مسلمانوں کی مسجد کے مینار کی تعمیر رکوا دی ہے اور فساد کا خطرہ سر پر کھڑا ہے جس کی وجہ سے اب تک ایک درجن میٹنگیں منعقد کی جاچکی ہیں اور مقامی پولیس نے ہندوئوں کے 32 اور مسلمانوں کے 8 رہنمائوں کو خبر دار کیا ہے کہ فساد نہیں ہونا چاہئے، اس سلسلہ میں امر گائوں کے ہندو پردھان اوم پرکاش ورما کا کہنا ہے کہ مینار کی تعمیر 2016 میں شروع ہوئی تھی اور مالی دشواریوں کے سبب تعمیر کا سلسلہ روک دیا گیا تھا اور اب مسلمانوں کے چندوں سے مینار دوبارہ بنانا شروع کیا گیا، تو ہزاروں ہندوئوں نے گائوں امر گڑھ میں آکر اس کی تعمیر کا کام رکوا دیا اور فساد کا ایک ماحول پیدا ہوچکا ہے۔ مینار کی تعمیرکا کام تقریباً مکمل ہے، لیکن تزئین و آرائش کا کام باقی ہے۔ ایک غیر مقامی ہندو لٹھ باز نے دلیل دی ہے کہ مسجد کے مینار کی تعمیر پر پہلے اس لئے کوئی اعتراض نہیں تھا کہ انہیں اس بات کا خیال نہیں آیا تھا کہ اگر علاقے میں کوئی زلزلہ آگیا تو یہ مینار اپنی زد میں آنے والے ہندو راہگیروں کی درد ناک موت کا سبب بن سکتا ہے، لیکن اب ہمیں خیال آگیا ہے کہ زلزلے کی صورت میں یہ مینار ہندوئوں کیلئے موت کا پیغام ثابت ہوگا۔ اس لئے ہم نے منع کردیا ہے کہ مینار مت بنائو ورنہ مسجد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ایک مقامی ہندو رمیش کی جانب سے پولیس اسٹیشن میں دی جانے والی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مینار ہندوئوں کیلئے خطرات کا سبب ہے کیونکہ کسی فساد کی صورت میں مسلمان اس مینار پر چڑھ کر ہندوئوں پر حملہ کرسکتے ہیں۔ مقامی سب ڈویژنل مجسٹریٹس اونیش چندر موریا سے جب صحافیوں نے اس سنگین معاملہ کے بارے میں استفسار کیا تو ان کا ماننا تھا کہ مینار کی تعمیر کیلئے ان سے اجازت طلب نہیں کی گئی تھی لیکن گائوں کے ہندوئوں نے بھی مان لیا ہے کہ انہوں نے اس کی تعمیر سے قبل کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ چندر موریا کا دعویٰ ہے کہ صورت حال قابو میں ہے لیکن مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ شدید دبائو اور خوف کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ گائوں کے اطراف 2 ہزار سے زائد پولیس اہلکار اور اینٹی ریاٹ فورس تعینات کی گئی ہے، لیکن اس سبھی انتظام کے باوجود ان کو قتل، گائوں سے نکالے جانے اور مسجد کو شہید کرنے کی دھمکیاں معمول کا حصہ ہیں۔ مقامی لکھاری گوپی ناتھ نے بتایا ہے کہ مساجد کے نئے میناروں کی تعمیر کا یہ تیسرا تنازع ہے جس میں مقامی ہندوئوں نے مسلمانوں کو جان کی قیمت دینے پر دھمکایا ہے کہ وہ مینار خود سے گرا دیں ورنہ ہندو مسجد کے میناروں کو مسمار کردیں گے اور اگر ہندوئوں نے مینار مسمار کیا تو یقینا وہ اس مسجد کو بھی مسمار کریں گے۔ گوپی نے یاد دلایا کہ دو ماہ کے اندر اندر حصار ضلع سمیت میوات میں دو مساجد کے زیر تعمیر میناروں کو ہندوئوں نے پولیس کی موجودگی میں گرا دیا اور مسلمانوں کو پابند کیا ہے کہ نئی مسجد بنانے کی کوئی اجازت نہیں ہے اور میناروں کو بھی گرایا جائے۔ بھارتی جریدے انڈین ایکسپریس کے مطابق ڈپٹی کمشنر، ضلع کلکٹر اور ایس ایس پی سمیت ضلعی انتظامیہ کے افسران سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور ہندو مسلم فسادات کو روکنے کیلئے لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن ہندو رہنمائوں نے کسی قسم کے دبائو میں آنے سے منع کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کسی طور مینار کے انہدام سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ ادھر ضلعی کلکٹر کا دعویٰ ہے کہ وہ ہندوئوں کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی مسجد کے ستر فٹ اونچائی والے مینار کو گرانا درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میناروں کے انہدام کی خبر سعودی اور خلیجی ممالک سمیت پاکستان بھی جائے گی اور ہندوئوں کیلئے مینار کے گرانے کی کارروائی ’’بوال‘‘ کھڑا کرسکتی ہے اس لئے امر گڑھ کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ستر فٹ اونچائی والے مینار کو آدھا گرا دیں اور اس کی اونچائی 30 فٹ تک رکھ لیں لیکن مسلمانوں نے خانہ خدا کی بے حرمتی سے انکار کردیا ہے اور امر گڑھ کے علمائے دین نے کہا ہے کہ ہندوئوں کا مینار پر اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ مسجد 50 سال پرانی ہے اور مینار بھی پرانا تھا، لیکن 2015ء میں اس مینار کی جگہ ایک مضبوط اور مخروطی خوبصورت نئے مینارکی تعمیر کاکام شروع کردیا گیا تھا، جس پر کسی کو کوئی اعتراض اس لئے بھی نہیں تھا کہ اس وقت اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی/ یوگی آدتیا ناتھ کی حکومت نہیں تھی اور اس وقت وزیر اعلیٰ سماج وادی پارٹی کے ایکلیش سنگھ یادیو (ملایم سنگھ کے بیٹے) تھے جو مسلمانوں کو بھی بھارت کا شہری اور انسان سمجھتے تھے، لیکن بی جے پی کے شعلہ بیاں رہنما یوگی آدتیا ناتھ کی حکومت آتے ہی مسلمانوں کے گوشت اور ذبیحہ کے کاروبار پر لات مار دی گئی۔ آگرہ، الہ آباد سمیت فیض آباد کا نام تبدیل کردیا گیاہے۔ تعلیمی نصاب میں مغل بادشاہوں کا نام مٹا دیا گیا اور یوگی حکومت کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس کے تین سالہ دور اقتدار میں 1,259 مسلم کش فسادات ریکارڈ کئے گئے، جس میں 300 سے زائد مسلمان شہید اور 3,000 زخمی ہوئے۔ مسلمانوں کی اربوں کی مسلمانوں کی جائیداد تباہ کی جاچکی ہے اور اب نئے رائونڈ میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کیخلاف نفرت کا بازار کھڑا کرکے مساجد کے میناروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا جارہا ہے۔