منی لانڈرنگ کیس-متحدہ رہنمائوں سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ

عمران خان
منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی ہٹ دھرمی نے اداروں کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کا رکن چار روز تک ایف آئی اے کائونٹر ٹیرر ازم ونگ کراچی کے آفس میں بیٹھا رہا، لیکن طلب کرنے کے باوجود کسی متحدہ رہنما اور عہدیدار نے پیش ہوکر بیان دینے کی زحمت گوارا نہیں کی، جس کے اگلے روز تفتیشی افسر واپس اسلام آباد روانہ ہوا، جہاں ایک روز بعد ہی متحدہ رہنمائوں کو اسلام آباد میں پوری جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کیلئے سخت الفاظ پر مشتمل نوٹس جاری کئے گئے۔ متحدہ لندن منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی جانب سے پیر کو 14 متحدہ رہنمائوں کو نوٹس جاری کرنے کے بعد منگل کے روز مزید 10 رہنمائوں کے نوٹس جاری کردیئے گئے۔ اس طرح سے مجموعی طور پر ایم کیو ایم کے دو ارکان قومی اسمبلی سمیت 24 متحدہ رہنمائوں کو تفتیش میں طلب کیا گیا ہے۔ جس میں سے 14 رہنمائوں کو 15 نومبر اور 10 رہنمائوں کو 20 نومبر کو اسلام آباد ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیا ہے۔ متحدہ منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں شامل ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ بعض رہنمائوں کے خلاف ایف آئی اے نے مکمل ثبوت اور شواہد حاصل کرلئے ہیں، جنہوں نے کروڑوں روپے نہ صرف خدمت خلق کے اکائونٹس میں جمع کروائے، بلکہ کروڑوں روپے غدار وطن الطاف حسین کے استعمال کیلئے لندن بھجوائے۔ ان رہنمائوں میں ڈپٹی میئر ارشد ووہرا سرفہرست ہیں، جن کے خلاف تمام ثبوت کیس فائل کا حصہ بنا دیئے گئے ہیں اور سب سے پہلے انہی کی گرفتاری متوقع ہے۔ ذرائع کے بقول منی لانڈرنگ کیس میں ان رہنمائوں اور عہدیداروں کو بھی طلب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جوکہ اب پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس کیلئے مجموعی طور پر بننے والی فہرست جس میں 580 متحدہ رہنمائوں اور عہدیداروں کے نام شامل ہیں۔ ان میں 150 سے زائد ایسے رہنما اور عہدیداروں کے نام ہیں جو پاک سرزمین پارٹی میں کام کر رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونے کی اطلاعات پر پی ایس پی کے رہنمائوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔
ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ اسلام آباد کے حکام کے مطابق منگل کے روز جن متحدہ رہنمائوں کو نوٹس جاری کئے گئے ان میں ان میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری، نسرین جلیل، اقبال قادری، سمن سلطانہ جعفری، کشور زہرہ اور ڈاکٹر فروغ نسیم کے ساتھ ساتھ مولانا تنویر الحق تھانوی بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے والے ایم کیو ایم کے سابق رہنماؤں آصف حسنین، نائلہ منیر اور سلمان بلوچ شامل ہیں۔ ان تمام رہنمائوں میں سے سب سے زیادہ رقم آصف حسنین کی جانب سے بھیجی گئی، جو 10 لاکھ روپے سے زائد ہے۔
اس ضمن میں تحقیقات سے منسلک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسلام آباد کائونٹر ٹیررازم ونگ فرمان علی نے ’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت میں بتایا ہے کہ تحقیقات کو تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن رہنمائوں کو نوٹس ارسال کئے جا رہے ہیں، ان کے خلاف شواہد سامنے آچکے ہیں۔ تاہم اگر طلب کرنے پر یہ پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف ایف آئی اے کے قوانین کے تحت کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا، جس میں ان کی گرفتاریاں کی جائیں گی۔ تحقیقاتی ٹیم کے رکن کا مزید کہنا تھا کہ متحدہ منی لانڈرنگ کیس میں خدمت خلق فائونڈیشن کے بینک اکائونٹس میں جمع کروائے جانے والے فنڈز کو منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن بھجوانے والے رہنمائوں کے خلاف اب تک کی تحقیقات میں نہ صرف خدمت خلق کے بینک اکائونٹس میں جمع کروائے گئے فنڈز کا ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے، بلکہ منی لانڈرنگ میں ملوث رہنمائوں کے بینک اکائونٹس کا بھی ریکارڈ حاصل کرلیا گیا ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ خدمت خلق کے مسلم کمرشل بینک کی کراچی کی برانچ میں قائم اکائونٹس میں ہونے والی ٹرانزیکشنز کو ثابت کرنے کیلئے وائوچرز اور بینک چالان کی فوٹو کاپیاں ایف آئی اے کو دی گئی ہیں تاہم عدالت میں کیس ثابت کرنے کیلئے بینک سے مانگی گئے اصل وائوچرز اور بینک چالان کا ریکارڈ ابھی تک ایف آئی اے کو نہیں ملا تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ اگر بینک یہ ریکارڈ فراہم نہیں کرے گا تو ایف آئی اے کے قوانین کے تحت بینک انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ اسلام آباد ظفر محمود کی جانب سے متحدہ رہنمائوں کو طلبی کیلئے جاری نوٹس میںکہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران پتہ چلا ہے کہ ان رہنمائوں کی جانب سے 2013 سے 2015 کے دوران خدمت خلق فاؤنڈیشن میں رقوم جمع کروائی گئیں جسے غیرقانونی کاموں کیلئے استعمال کیا گیا۔ لیٹر میں طلب کئے گئے افراد کو انتباہی طور پر مزید لکھا گیا ہے کہ اگر یہ افراد جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو یہ تصور کیا جائے گا کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اور اس صورت میں ایف آئی اے قوانین کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔
تحقیقاتی کمیٹی کے ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر ایم کیو ایم کی ذیلی تنظیم خدمت خلق فائوندیشن کے ذریعے ایف آئی اے کو 1 ارب 32 کروڑ روپے سے زائد کی رقم 2013ء سے 2015ء کے دوران لندن منتقل کرنے کے شواہد ملے ہیں اور یہ رقم دو برسوں کے دوران ایم کیو ایم کے جن رہنمائوں، عہدیداروں اور کارکنوں نے جمع کروائی ان کی تعداد 580 کے قریب ہے۔ جبکہ 200 سے زائد وائوچرز اور بینک چالان پر جعلی اور فرضی ناموں سے خدمت خلق کے اکائونٹ میں چندہ کے نام پر رقوم جمع کروائی گئیں۔ ذرائع کے مطابق اب تک مذکورہ 580 افراد میں سے 157 متحدہ رہنمائوں اور عہدیداروں کو ایف آئی اے کی ٹیم کی جانب سے پوچھ گچھ کیلئے طلبی کے نوٹس جاری کئے جاچکے ہیں، جن میں سے صرف 42 رہنمائوں اور عہدیداروں نے پیش ہوکر بیانات قلمبند کروائے ہیں۔ ان میں فاروق ستار، ارشد ووہرا سمیت دیگر شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول فہرست میں شامل کئی متحدہ عہدیدار اور کارکنان جن میں ماضی میں سیکٹر اور یونٹ کی سطح پر کام کرنے والوں کے علاوہ تنظیمی کمیٹی کے افراد شامل تھے، اس وقت ملک سے باہر ہیں اور دبئی، جنوبی افریقہ، ملائیشیا وغیرہ میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم 150 سے زائد ایسے رہنما اور کارکن ہیں جنہوں نے ایم کیو ایم کو چھوڑ کر پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ ذرائع کے بقول پہلے مرحلے میں ان رہنمائوں کو طلب کیا گیا تھا جن کے حوالے سے کروڑوں روپے کی منتقلی کے شواہد ملے تھے۔ ان میں موجودہ ڈپٹی میئر ارشد ووہرا سر فہرست ہیں۔ ان کے حوالے سے ناقابل تردید ثبوت کیس فائل کا حصہ بنا دیئے گئے ہیں جبکہ اب دوسرے مرحلے میں ان افراد کو طلب کیا جا رہا ہے جنہوں نے ایک لاکھ روپے سے لے کر 10 لاکھ روپے تک کی رقم جمع کروائی تھی۔
ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ ذرائع کے مطابق کیس پر تحقیقات کو تیزی سے چلانے کیلئے گزشتہ دنوں جے آئی ٹی کا ایک ممبر کراچی میں کائونٹر ٹیررازم ونگ کے آفس میں بھیجا گیا تھا تاکہ وہ مقامی طور پر کام کرنے والی ٹیم کے ساتھ کراچی میں موجود ایم کیو ایم او ؎ر پی ایس پی کے ایسے رہنمائوں اور عہدیداروں کو طلب کرکے بیان لے سکے، جو فہرست میں شامل ہیں۔ ٹیم کا رکن چار روز تک مسلسل آفس میں بیٹھتا رہا لیکن طلب کرنے کے باوجود کوئی رہنما اور عہدیدار پیش نہیں ہوا جس کے بعد کاررروائی اسلام آباد سے ہی چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رہنماؤں کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ گزشتہ سال سرفراز مرچنٹ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

Comments (0)
Add Comment