کراچی میں انسداد تجاوزات مہم انتہائی حساس مرحلے میں داخل

اقبال اعوان
سپریم کورٹ کے احکامات پر کراچی کے علاقے صدر میں تجاوزات کے خلاف تیسرے روز بھی آپریشن جاری رہا۔ 10 ہزار سے زائد ٹھیلے پتھارے ہٹانے کے بعد دوسرے مرحلے میں دکانوں کے سامنے لگے چھجے اور باہر نکلے سائن بورڈ بھی ہٹائے جا رہے ہیں۔ جبکہ تیسرے مرحلے میں برطانوی دور میں تعمیر ایمپریس مارکیٹ کے اطراف قائم مارکیٹوں کی 1700 دکانوں کو ہٹانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دو مرحلوں تک تو معاملہ قدرے ٹھیک رہا۔ دکان داروں کی جانب سے معمولی مزاحمت ہوئی۔ تاہم تیسرے فیز کے خلاف ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کی دکانوں کے دکاندار اور تاجر رہنما احتجاجی دھرنے میں بیٹھ چکے ہیں۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو تاجر رہنما اقبال کاکڑ نے بتایا کہ وہ لوگ 50 سال سے قائم ان دکانوں پر کروڑوں روپے لگا چکے ہیں۔ جبکہ کے ایم سی کو لاکھوں روپے ماہانہ کرایہ بھی ادا کرتے ہیں۔ اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ ٹھیلے پتھارے اور سائن بورڈ ہٹانے تک معاملہ ٹھیک تھا۔ تاہم مستقل دکان داروں کا روزگار نہ چھینا جائے یا انہیں متبادل جگہ فراہم کی جائے۔ واضح رہے کہ انسداد تجاوزات مہم کے خلاف صدر کے دکان داروں میں شدید برہمی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ تیسرے مرحلے میں صدر ایمپریس مارکیٹ، لکی اسٹار سے صدر دواخانہ، سی بریز پلازہ سے نیو پریڈی اسٹریٹ، جٹ لین روڈ، تبت سینٹر سے ریگل چوک، نوید کلینک سے زینب مارکیٹ، پاسپورٹ آفس اور سندھ ہائی کورٹ والی سڑک سے فوارہ چوک کے قریب تک انسداد تجاوزات آپریشن ہوگا۔ ان مقامات پر 10 روز کے دوران تجاوزات کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ جبکہ آپریشن کے بعد نگرانی رکھنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ دوبارہ تجاوزات قائم نہ ہوں۔ واضح رہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے اندر اور اطراف کی مارکیٹوں میں 1700 سے زائد دکانیں ہیں جہاں سے کے ایم سی کو لاکھوں روپے ماہانہ کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔ یہاں مرغی، گوشت، سبزی، کپڑوں کی دکانیں، پرندہ مارکیٹ، پتنگ مارکیٹ، خشک میوہ جات کی دکانیں، مصالحہ جات اور مختلف اجناس کی دکانیں قائم ہیں۔ لنڈا کے کپڑوں کے گودام بھی بنائے گئے ہیں۔ جبکہ آپریشن والے علاقوں میں لگ بھگ 10 ہزار سے زائد ٹھیلے پتھارے لگتے تھے۔ یہاں پر منی بسوں، کوچوں، بسوں، رکشوں کے اڈے بھی قائم تھے۔ ٹھیلے پتھارے والوں کو جہاں مختلف پارٹیوں کی سرپرستی حاصل تھی، وہاں کے ایم سی، ڈی ایم سی، پولیس، ٹریفک پولیس، انسداد تجاوزات کے ادارے اور دیگر سرکاری ادارے بھی بھتہ لے کر سرپرستی فراہم کرتے تھے۔ صدر ایمپریس مارکیٹ کے اطراف گزشتہ 35 سال سے کئی نمائشی آپریشن کئے جاتے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اب بھی ٹھیلے پتھارے والوں کو کہا گیا ہے کہ کچھ دن صبر کیا جائے، انہیں دوبارہ صدر میں ہی ایڈجسٹ کرا دیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے میں دکانوں کے چھجے، سامنے لگے سائن بورڈ وغیرہ ہٹائے گئے۔ اب تک پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کی موجودگی میں مزاحمت کم نظر آئی ہے، چند افراد کو مزاحمت کرنے پر پکڑا بھی گیا۔ تاہم اب تیسرے مرحلے میں معاملہ پر تشدد ہوسکتا ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے چاروں اطراف کے گیٹ پر تالے لگا دیئے گئے ہیں۔ دوسری جانب رینبو سینٹر، نعمان سینٹر، جہانگیر پارک اور دلدار سینٹر کے سامنے ایمپریس مارکیٹ سے متصل مارکیٹوں کی تمام دکانیں توڑی جائیں گی۔ ادھر شہاب مارکیٹ کے دکاندار بھی مشتعل ہیں کہ دکانداروں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ نعمان سینٹر کے سامنے ایمپریس مارکیٹ سے متصل عمر فاروق مارکیٹ ہے جس میں 400 سے زائد دکانیں ہیں۔ وہاں کے ایک تاجر جمال خان کا کہنا تھا کہ دکانداروں کو انصاف فراہم کیا جائے، ورنہ احتجاج جاری رکھیں گے۔ ایمپریس مارکیٹ میں خشک میوہ جات کی مارکیٹ کے تاجر رہنما محمد فاروق کا کہنا تھا کہ بغیر کسی جواز کے دکانیں توڑنے نہیں دیں گے۔ بات فٹ پاتھ، ٹھیلے پتھاروں کی ہورہی تھی، اب معاملہ ایمپریس مارکیٹ کو خالی کرانے کا آگیا ہے۔ جب تک مذاکرات نہیں کئے جاتے، احتجاجی دھرنا جاری رہے گا۔ بات چیت سے معاملہ حل کریں۔ اگر زور زبردستی کی گئی تو دکان دار پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دھرنے میں موجود شہاب الدین مارکیٹ کے تاجر رہنما محمد رضوان کا کہنا تھا کہ شہاب الدین مارکیٹ کے دکانداروں کو اب تک مالکانہ حقوق نہیں دیئے گئے ہیں۔ اب بعض دکانوں کو غیر قانونی ظاہر کرکے گرانے کی بات کی جارہی ہے۔ ہم اس طرح نہیں ہونے دیں گے۔ عمر فاروق مارکیٹ کے تاجر رہنما کا کہنا تھا کہ آپریشن کی آڑ میں کے ایم سی مارکیٹیں ختم کرائی جارہی ہیں کہ اس قیمتی جگہ پر بعد میں مہنگی قیمت پر دکانیں بیچی جائیں گی۔ ایم ٹھیلے والے ظہور کا کہنا تھا کہ غریبوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے ۔٭

Comments (0)
Add Comment