وزارت خارجہ نے ایک ماہ تک عافیہ کی اپیل دبائے رکھی

امت رپورٹ
پچھلے پندرہ برس سے امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وزیر اعظم عمران خان کے نام اپیل کو وزارت خارجہ نے قریباً ایک ماہ تک دبائے رکھا۔
میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق تحریری اپیل عافیہ صدیقی نے ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل سے ملاقات کے دوران ان کے حوالے کی۔ اپیل نما یہ خط پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر سرکاری حکام کی طرف سے عافیہ کی فیملی کو تاحال یہ خط فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ بدھ کی رات ان سطور کے لکھے جانے تک کسی حکومتی نمائندے نے اہل خانہ سے رابطہ بھی نہیں کیا تھا۔
خط کے مطابق امریکی ریاست ہیوسٹن میں تعینات پاکستانی قونصلر جنرل نے 9 اکتوبر کو ایف ایم ایس کارس ویل جیل ٹیکساس میں عافیہ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر عافیہ نے قونصل جنرل سے درخواست کی کہ وہ ان کا پیغام وزیر اعظم تک پہنچا دیں۔ اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عافیہ صدیقی سے ملاقات کرنے والی پاکستانی قونصلر جنرل عائشہ فاروقی تھیں، جو پہلے بھی کئی بار عافیہ صدیقی سے ملاقات کر چکی ہیں۔ اس میں سرکاری وزٹ کے علاوہ ان کی ذاتی ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ کیونکہ عائشہ فاروقی بطور خاتون عافیہ صدیقی سے ہمدردی رکھتی ہیں۔ اور یہ کہ عافیہ صدیقی کی معمر والدہ سے ٹیلی فونک گفتگو میں انہوں نے ایک بوڑھی اور بے بس ماں کا جو دکھ محسوس کیا، اس سے ان کے دل میں متاثرہ فیملی کے لئے ہمدردی کا جذبہ بڑھ گیا۔ جب ایک وقت میں عافیہ صدیقی کی زندگی کے بارے میں افواہ پھیلی تو یہ عائشہ فاروقی تھیں، جنہوں نے ٹیکساس کی جیل میں جا کر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی اور ان کی خیریت سے فیملی کو آگاہ کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ 9 اکتوبر کو جب عائشہ فاروقی نے جیل میں جا کر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی تو اس موقع پر انہوں نے کراچی میں مقیم عافیہ کے اہل خانہ سے بھی ٹیلی فون پر بات کی تھی اور بتایا تھا کہ عافیہ نے اپنی رہائی کے حوالے سے وزیر اعظم کو اپیل کی ہے اور درخواست کی ہے کہ یہ پیغام عمران خان تک پہنچا دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات کے اگلے روز یعنی 10 اکتوبر کو خاتون قونصلر جنرل نے عافیہ کی اپیل وزارت خارجہ یا دفتر خارجہ کو بھیج دی تھی۔ جس کے بعد سے عافیہ کے اہل خانہ کو اس معاملہ میں پیش رفت کا انتظار تھا۔ تاہم جب اس معاملے کو تین ہفتے سے زائد گزر گئے تو عافیہ صدیقی کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے خود اسلام آباد جا کر وزیر خارجہ شاہ محمود قرشی سے رابطے کا فیصلہ کیا۔ اور وہ اسلام آباد پہنچ گئیں۔ پہلے دن وزیر خارجہ اپنی مصروفیت کے سبب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ملاقات کا ٹائم نہ دے سکے۔ پھر تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا شروع ہو گیا۔ جبکہ اس دوران وزیر خارجہ، وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ چین کے دورے پر روانہ ہو چکے تھے۔ قصہ مختصر فوزیہ صدیقی کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات نہ ہو پائی۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر خارجہ سے ملاقات نہ ہونے پر اسلام آباد میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ اور یہ ملاقات ہو بھی گئی۔ شیریں مزاری، ڈاکٹر فوزیہ سے نہایت خوش دلی سے ملیں اور انہیں کہا کہ وہ عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق تجاویز کا ایک مختصر رائٹ اپ انہیں لکھ کر دے دیں۔ جس میں ان تین پوائنٹس کو اجاگر کیا جائے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے حکومت کو کیا فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ وہ نہ صرف اس سلسلے میں اپنی حکومت سے بات کریں گی، بلکہ یہ معاملہ کابینہ میں بھی اٹھائیں گی۔ جس کے بعد ڈاکٹر فوزیہ واپس کراچی آ گئیں۔ تاہم ان کی فیملی کو اس وقت شدید حیرانی ہوئی جب اچانک عافیہ صدیقی کی رہائی کی تحریری اپیل منظر عام پر آئی۔ کیونکہ اہل خانہ کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی اپیل میڈیا کو فراہم کئے جانے سے پہلے انہیں فراہم کی جانی چاہئے تھی۔ یا کم از کم اس سلسلے میں حکومت کا کوئی نمائندہ ان سے بات کرتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپیل کو ایک ماہ تک دبا کر کیوں رکھا گیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوششوں میں برسوں سے مصروف ایک ذریعہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ اپیل کو ایک ماہ تک دبائے رکھنا باعث حیرت ہے۔ پھر اپیل کو منظر عام پر لانے کی ٹائمنگ معنی خیز ہے۔ وزیر اعظم کی حد درجہ تعریفوں پر مشتمل اس اپیل کا فائدہ کس کو ہوا؟ ذریعہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے نام لکھے جانے والے خط کا متن عافیہ کا لہجہ نہیں۔ کیونکہ خط عافیہ کی تحریر کے بجائے ٹائپ کیا گیا ہے۔ لہٰذا گمان ہے کہ اس میں حکومت نے اپنی طرف سے بھی ایسی باتیں شامل کر دی ہیں، جس کے ذریعے وزیر اعظم کو گلوروفائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی تصدیق یا تردید خود عافیہ ہی کر سکتی ہیں کہ انہوں نے قونصلر جنرل سے واقعی یہ ساری باتیں کی تھیں، جسے خط میں شامل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عافیہ سے منسوب خط میں رہائی کی اپیل اور غیر قانونی قید کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’عمران خان ہمیشہ میرے بڑے ہیروز میں سے ایک رہے ہیں۔ اور یہ کہ میں انہیں مسلم امہ کا خلیفہ بنتا دیکھنا چاہتی ہوں۔ ماضی کی غلطیوں پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنانے والے تمام لوگوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اسلامی قوانین کے مطابق وہ معصوم ہیں۔ اگر کسی کو اس پر شک ہے تو میں اس پر بحث کر سکتی ہوں‘‘۔
عافیہ صدیقی کو قریب سے جاننے والے ایک سے زائد لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک تو یہ عافیہ کی تحریر کا اسلوب نہیں اور دوسرا یہ کہ خط میں اپیل سے زیادہ وزیر اعظم کی قصیدہ خوانی کی گئی ہے۔ جس کی ضرورت نہیں تھی۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عافیہ صدیقی کی اپیل کو بھی مرضی کے الفاظ شامل کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ اس بارے میں خود ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ردعمل سے بھی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ دونوں بہنوں نے نہ صرف اپنی زندگی کا بڑا حصہ ایک ساتھ گزارا، بلکہ ملازمت کے دوران امریکہ میں ایک ساتھ مقیم بھی رہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے فوزیہ صدیقی نے بھی واضح طور پر قرار دیا کہ اپیل میں لکھی گئی تحریر عافیہ کی لینگویج نہیں۔ نہ عافیہ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر ہے۔ فوزیہ صدیقی کہتی ہیں ’’خاتون قونصل جنرل نے عافیہ سے ملاقات کے بعد مجھے ٹیلی فون پر بتایا تھا کہ انہوں نے عافیہ سے تحریری اپیل لے لی ہے اور فارن آفس بھیج رہی ہیں۔ قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ عافیہ نے اپیل میں اپنی قید کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان آنا چاہتی ہیں۔ اور اس سلسلے میں انہیں وزیر اعظم عمران خان سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ امید ہے کہ وہ مایوس نہیں کریں گے۔ تاہم عافیہ کی اپیل کا فی البدیہہ متن بیان کرتے ہوئے قونصل جنرل نے کہیں بھی وہ الفاظ ادا نہیں کئے تھے، جو میڈیا میں زیر گردش تحریری اپیل میں لکھے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مقصد ہے کہ اپیل کے بارے میں قونصل جنرل نے جو باتیں بتائیں اور اپیل میں جو الفاظ لکھے گئے ہیں، ان میں بہت زیادہ فرق ہے‘‘۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بقول اس بات سے قطع نظر کے عافیہ صدیقی نے اپنی اپیل کے لئے کون سے الفاظ ادا کئے اور کون سے نہیں کئے۔ اہم چیز یہ ہے کہ اب قوم کی بیٹی کی جانب سے ایک تحریری اپیل حکومت کے پاس آ گئی ہے۔ لہٰذا وہ فوری طور پر عافیہ صدیقی کی رہائی کا انتظام کرے۔ ’’زندان سے پکار آئی ہے۔ تاریخ گھوم کر پھر دیبل کی سرزمین میں گونج رہی ہے۔ کیا کوئی محمد بن قاسم قوم کی بیٹی کو واپس لائے گا؟‘‘۔ فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ سرکاری طور پر عافیہ کو واپس لانے کے لئے ان کی دستخط شدہ ایک تحریری اپیل کی ضرورت تھی۔ اب اسی طرح کی دستخط شدہ تحریری اپیل حکومت کو لکھنی ہو گی۔ جس کے بعد امریکہ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں نواز شریف کے دور میں بھی عافیہ صدیقی نے اسی قسم کی رہائی کی تحریری اپیل بھیجی تھی۔ تاہم اس وقت کے حکمرانوں نے سرکاری تحریر پر دستخط نہیں کئے۔ اب عافیہ کی تحریری اپیل آ چکی ہے اور اگلے پراسس کے لئے حکومتی اپیل کی ضرورت ہے، جس پر عمران خان کے دستخط ہوں۔ اس کے بعد معاملہ آگے بڑھے گا۔ یہ وزیر اعظم عمران خان کے لئے ایک امتحان ہے، جو اپنی انتخابی مہم میں عافیہ صدیقی کی رہائی کا نعرہ لگا کر جلسے کرتے رہے ہیں۔ اس امتحان پر وہ پورا نہ اترے تو ماضی کے حکمرانوں کی طرح ہیرو سے زیرو ہو جائیں گے۔ ٭

Comments (0)
Add Comment