حضرت پیرمہر علی شاہ گولڑوی

سید ارتضی علی کرمانی
حضرت پیر سید عباس علیؒ شاہ بخاری صاحب نے 14 مارچ 1944ء کوایک خواب دیکھا اور اس کی تفسیر ملک محمد خدا بخش ٹوانہ سے بیان فرمائی۔ ملاحظہ کیجئے۔
’’بمبئی میں برسات کی ایک سرد رات میرے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دیکھا تو ایک شکستہ حال مجذوب پانی میں تربتر کھڑا کانپ رہا تھا۔ کہنے لگا چائے پلاؤ۔ رات کا کوئی دو بجے کا عمل ہوگا۔ اسٹوو پر میں نے چائے بنا کر پیش کی۔ اس مجذوب نے چائے پی اور چلا گیا۔ جیسے ہی میری آنکھ لگی۔ ایک بزرگ خواب میں آکر فرمایا ’’آپ نے تکلیف اٹھاکر میرے فقیر کو چائے پلائی ہے۔ جس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘
میں جاگ کر پھر سویا تو پھر وہی خواب دورباہ دیکھا۔ میں نے پہلی مرتبہ ان بزرگ کا چہرہ دیکھا تھا۔ یعنی اس سے قبل میں نے ان کو نہ تو پہلے کبھی دیکھا اور نہ ملاقات کی تھی۔ آخر تیسری بار جب یہی خواب دکھائی دیا تو ذہن میں ان کا چہرہ نقش ہو گیا۔
اب میرا دل بزرگ سے ملنے کے لئے بے تاب ہوگیا اور میں نے مجذوب مذکور کی تلاش کردی۔ مگر نہ ملا۔ تھوڑے دن ٹھہر کر ارد گرد کے علاقوں میں خوب تلاش کیا، مگر اس کا کوئی پتہ نہ ملا۔ اب میری بے قراری بڑھی اور میں نے اس کو دیگر علاقوں میں تلاش کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ کیونکہ میرے خیال میں یہ بات تھی کہ اگر اس مجذوب کا پتہ ملا گیا تو خواب میں دکھائی دینے والے بزرگ سے ملاقات ہو ہی جائے گی۔
اس سلسلے میں دکن، بنگال، بہار، یوپی، اجمیر اور پنجاب میں جہاں بھی کسی بزرگ کا نام سنا وہیں جا پہنچا، مگر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ لیکن ہر وقت انہی بزرگ کی تصویر میرے دماغ پر چھائی رہتی تھی۔
آخر مایوسی میرے اوپر غالب آنا شروع ہوگئی۔ میں نے بمبئی کا ٹکٹ بھی بنوالیا تھا کہ اتفاق سے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے تمام حال ان سے کہہ دیا۔ تمام حال سن کر کہنے لگے ’’گولڑے گئے ہو؟‘‘ میں نے تو گولڑے کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ میں نے پوچھا کہ وہاں تک پہنچوں گا کس طرح۔ کہنے لگے کہ ’’راولپنڈی سے اگلا اسٹیشن ہے۔‘‘
چنانچہ بمبئی کا ٹکٹ واپس کر کے گولڑہ کا ٹکٹ بنوایا۔ صبح جب وہاں پہنچا تو آپ ابھی مسجد میں مصروف وظائف تھے۔ میں نے مسجد میں ابھی قدم رکھا ہی تھا کہ مسجد کے اندر سے آواز آئی: ’’مولانا صاحب آجایئے‘‘ آگے چلا تو وہی آواز دوبارہ آئی ’’شاہ صاحب تشریف لایئے‘‘ اور جب حاضر ہوا تو آپ نے اٹھ کر معانقہ کیا اور فرمایا ’’سید صاحب وعلیکم السلام…‘‘ وہی مقصود نظر سامنے تھی۔ جس کے دیدار کے لئے میں شہروں کے شہر چھان مارے تھے اور میں تعجب کر رہا تھا کہ میرے بخارا چھوڑنے کے بعد کسی کو معلوم نہ تھا کہ میں سید ہوں۔ آج پہلی مرتبہ مجھے سید کہہ کر پکارا گیا ہے اور ایک ایسے بزرگ نے پکارا تھا کہ جس کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔‘‘
ایک مرتبہ میاں تابا قوال نے امرتسر میں سنا کہ دیوان صاحب دربار بابا فرید گنج شکر کے نرینہ اولاد ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ کسی جادوگر نے عمل کر رکھا ہے۔ جب حضرت صاحبؒ کی خدمت میں اس بات کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ قادر ہے۔ سحر کا کچھ اثر نہیں ہوگا۔ آپ نے ان الفاظ کے بعد دعا فرمائی۔ چنانچہ اگلے ہی سال حضرت دیوان غلام قطب الدین پیدا ہوئے۔ سحر وغیرہ کا اثر جاتا رہا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment