حضرت ابو موسیٰ ہارون حمالؒ بہت بڑے عالم، عابد، محدث اور کامیاب استاد تھے۔ اوائل میں کپڑے کی تجارت کی، مگر بعد میں یہ کام چھوڑ دیا اور لوگوں کے سامان اور اسباب ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کی مزدوری اور بار برداری کا پیشہ اختیار فرمایا۔ اس سے جو اجرت ملتی تھی، خود اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے، مگر سرمایہ داروں کی بلند عمارتوں اور بڑی بڑی ڈیوڑھیوں کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ علم و فضل اور ذہانت و ذکاوت کی فطری دولت سے رب تعالیٰ نے مال مال کر دیا تھا۔
ان کی عظمت اس قدر بڑھی کہ اپنے اور اغیار سب ان کے قائل تھے، وجہ صرف یہ تھی کہ ان کی پشت پر اخلاص کی ایسی زبردست قوت کار فرما تھا، جس نے قیامت تک ان کو زندہ جاوید بنا دیا۔ حضرت سفیان بن عینیہؒ، معین بن عیسیٰؒ، ابو عاصمؒ، ابو عامر عقدیؒ ان کے مشہور اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ امام حربیؒ ان ہی کی صداقت اور سچائی کے بارے میں فرمایا کرتے تھے:
’’ اگر بالفرض جھوٹ بولنا حلال اور جائز ہوتا تب بھی وہ ہرگز جھوٹ بولنے کے لئے آمادہ نہ ہوتے۔‘‘ (ارباب علم و کمال اور پیشہ رزق حلال)
حاتم طائی کا سردار
حضرت امام مالکؒ نے فرمایا: اوس بن خارجہؒ سے سوال ہوا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا: حاتم طائی،
پھر پوچھا کہ آپ اس کے مقابلے میں کس درجے میں ہیں؟ فرمایا میں اس کے خادم ہونے کے بھی قابل نہیں ہوں، حاتم طائی سے سوال ہوا، تمہارا سردار کون ہے؟ جواب دیا اوس بن خارجہ، پھر سوال ہوا کہ آپ اس کے مقابلے میں کس درجہ پر ہیں؟ فرمایا: میں اس کے مملوک ہونے کے بھی قابل نہیں ہوں۔ (مخزن 198)
گناہ پر ندامت!
ایک نوجوان حضرت ابن مبارکؒ کی خدمت میں آیا۔ آپؒ کے پاؤں پر گر کر زار و قطار رو دیا اور عرض کیا: میں نے ایسا گناہ کیا ہے کہ میں اسے شرم کے مارے بیان نہیں کر سکتا۔ آپؒ نے فرمایا: بتلاؤ تو سہی، آپ نے کیا کیا ہے؟
اس نے کہا میں نے زنا کیا ہے، آپؒ نے اس کے سامنے زنا کی برائی بیان فرمائی اور پھر فرمایا: میں ڈر گیا تھا کہ شاید تو نے کسی کی غیبت کی ہے۔
جس گناہ کو آج معاشرے کا لازمی حصہ قرار دیا جاتا ہے اور جس گناہ کے ہماری مجالس نامکمل رہتی ہیں، اس کی شدت کتنی زیادہ ہے، حق تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
مشتبہ چیزوں احتیاط
مولانا احمد علی لاہوریؒ شیخ التفسیر تھے، اپنے ہاتھ سے صابن بنایا کرتے اور تصحیح کتب کا کام کرکے رزق حلال کماتے، اپنے بچوں کا پیٹ پال کر تبلیغ دین، درس قرآن اور اعلائے دین میں مگن رہتے، ہفتوں فاقے برداشت کیے، اپنا اور بچوں کا پیٹ کاٹا، مگر مشتبہ کھانے کی طرف نظر اٹھا کر کبھی نہیں دیکھا، آپؒ اکثر فرمایا کرتے:
’’غیر کے سامنے اپنی حاجت پیش کرنا خدا کی غیرت کو چیلنج دینا ہے۔ شکایت حال شکایت رب ذو الجلال ہے۔‘‘ (ارباب علم و کمال اور پیشہ رزق حلال)
٭٭٭٭٭