عبدالمالک مجاہد
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ایک زمانے میں دمشق میں سو سے زیادہ حمامات تھے۔ ان میں سے بعض حمامات عورتوں کے لیے مختص تھے۔ امام ابن القیمؒ نے اپنی مشہور کتاب الجواب الکافی میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص اپنے گھر کے قریب بازار میں کھڑا تھا۔ اس کے گھر کے قریب ہی خواتین کے لیے حمام تھا۔ پرانے زمانے میں شہروں میں بطور خاص گرم حمام ہوتے تھے۔ جن میں امیر طبقے کے لوگ غسل کے لیے جاتے تھے۔ وہاں پر ملازم ہوتے جو ان کے قدموں کی صفائی کرتے، جسم کو دباتے، گرم پانی میں ان کو غسل دلانے میں مدد کرتے۔ جس طرح آج کل چین میں مساج سینٹر بنے ہوئے ہیں، جہاں پر قدموں کی مالش کی جاتی ہے۔ راقم الحروف کو پرانے دمشق کے بازار میں بڑے قدیم گرم حمام میں غسل کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ یہ حمام ایک کنال سے زیادہ جگہ پر بنا ہوا تھا۔ بڑے بڑے ہال تھے، جہاں گرم پانی سے غبار اڑ رہا تھا۔ کتنے ہی لوگ خدمت پر مامور تھے۔ اس کے صدر دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ یہ حمام نور الدین زنگیؒ کے دور 1169ء کا بنا ہوا ہے۔
یہ شخص جس کا گھر خواتین کے حمام کے قرب و جوار میں تھا، بڑا خبیث النفس تھا۔ اس کے گھر کا دروازہ بھی حمام کے دروازے سے ملتا جلتا تھا۔ ایک خوبصورت لونڈی خواتین کے حمام کو تلاش کرتی ہوئی اس کے پاس سے گزرتی ہے۔ لونڈی نے اس سے پوچھا کہ منجاب حمام کدھر ہے۔ اس نے اپنے گھر کی طرف اشارہ کر دیا۔ اس بے چاری کو کیا معلوم تھا کہ اس شخص کی نیت خراب ہے۔ اس نے اس کے گھر کو خواتین کا حمام سمجھا۔ اس نے دروازہ کھولا اور اندر چلی گئی۔ ادھر یہ خبیث شخص بھی اس کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہو گیا۔ داخل ہوتے ہی اس نے اندر سے کنڈی لگا لی، گھر بالکل خالی تھا۔ اسی اثناء میں لونڈی کو معلوم ہو گیا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، اس شخص کی نیت درست نہیں۔
لونڈی بڑی سمجھ دار اور عقل مند تھی۔ اس نے شور مچانے اور واویلا کرنے کے بجائے اس شخص سے کہا: میں تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کو تیار ہوں۔ وہ خبیث تو خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ لونڈی نے جھوٹ موٹ اس سے محبت کا اظہار کیا اور کہنے لگی: سنو! میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا، مجھے سخت بھوک لگی ہے۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ تم ایسا کرو کہ پہلے بازار سے میرے لیے کچھ خوشبو، عطور اور کھانے پینے کا سامان لے کر آؤ۔ میں تیار ہو جاؤں گی، پھر ہم آرام سے بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور اس کے بعد تم میرے آقا اور میں تمہاری لونڈی ہوں گی۔
خبیث کی تو باچھیں کھل اٹھیں، اس نے کہا: تم تھوڑی دیر کے لیے بیٹھو، میں ابھی بازار سے تمہارے لیے کھانا اور دیگر اشیاء لے کر آتا ہوں۔
وہ کھانا لینے چلا گیا، مسرت کے عالم میں باہر نکلتے وقت وہ دروازے کو کنڈی لگانا بھول گیا۔ لونڈی نے دیکھا کہ وہ چلا گیا ہے تو اس نے آرام سے دروازہ کھولا اور وہاں سے غائب ہو گئی۔
قارئین کرام! آگے بڑھنے سے پہلے میں اس لونڈی کی ذہانت اور فطانت کو داد کیوں نہ دوں۔ اس نے اپنے اعصاب قابو میں رکھے۔ اس بدنیت شخص پر قطعاً ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ خدا کی مدد اور توفیق سے اس مصیبت سے جان چھڑوا لی۔
ادھر وہ خبیث النفس بڑے شوق سے بھاگتا ہوا بازار جاتا ہے۔ وہاں سے من پسند کھانا، خوشبو اور عطریات خریدتا ہے اور گنگناتا ہوا اپنے گھر کی طرف واپس آتا ہے۔ وہ اس تصور میں تھا کہ گھر میں وہ خوبرو عورت میرا انتظار کر رہی ہے۔ گھر میں داخل ہوا، اب اس نے دروازے کی کنڈی چڑھائی۔ اس نے ایک کمرہ دیکھا، لونڈی وہاں موجود نہ تھی۔ دوسرا تیسرا… اس نے آوازیں دیں، مگر اس کی آواز ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گئی… اسے کوئی جواب نہ ملا۔ اسے معلوم ہو گیا کہ چڑیا ہاتھ سے نکل گئی۔ وہ کف افسوس ملتا ہوا گھر سے باہر نکلتا ہے۔ بازار میں آکر وہ دیوانہ وار لونڈی کو آوازیں دے رہا ہے۔ اس نے کچھ اشعار بھی کہے۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی آہ وزاری کام آ جائے گی۔ وہ پاگلوں کی طرح گلیوں اور بازاروں میں ہر بندے سے پوچھتا ہے: ’’مجھے بتاؤ منجاب حمام کا راستہ کدھر ہے۔‘‘ لوگ اس کی نامرادی اور مایوسی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لوگوں کو بھی اس کا قصہ معلوم ہو گیا۔ وہ عفیفہ اپنا دامن بچا کر جا چکی تھی۔ حق تعالیٰ سے ڈرنے اور خوف رکھنے والی خواتین اپنے دامن کردار کو آلودہ ہونے سے بچا لیتی ہیں۔
٭٭٭٭٭