دوسری قسط
نمائندہ امت
پاکستان کے ایسے کاروباری افراد جنہوں نے مختلف ادوار میں چینی خواتین سے شادیاں کیں، اور ان کی بیویاں چین میں زیر حراست ہیں، وہ اب انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہیں۔ پاکستانی بزنس مینوں نے پی ٹی آئی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے اور ان کے بیوی بچوں کو واپس لائے۔ بصورت دیگر چینی سفارتخانے کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال کی جائے گی۔ ایسے ہی ایک بزنس مین محمد خورشید (فرضی نام) کی بیوی بھی ڈیڑھ سال سے چین میں نظر بند ہیں۔ ان کے بچوں کو پاکستان بھی نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔ محمد خورشید کی کہانی نذر قارئین ہے۔
’’چینی پولیس اہلکار میری بیوی کو چہرے پر نقاب ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اپنی اہلیہ کے بعد میں اپنے پیسوں سے خریدے گئے گھر سے بھی بے دخل کرد یا گیا ہوں۔ بیوی کی گرفتاری کے بعد بچوں کو پاکستان لانا چاہتا ہوں، مگر چینی حکام میرے بچوں کا پاسپورٹ ہی بناکر نہیں دے رہے۔ ہم لوگ تنگ آ چکے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اب تمام تر حفاظتی نقطہ نظر ترک کر کے دھرنے دینے شروع کردیں۔ اگر اب بھی چین اور پاکستان کی حکومت نے ہمارے جائز مطالبات نہیں مانے تو ہم انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ کم از کم پاکستان کی حکومت کو تو اس مسئلے پر چینی حکومت سے بات کرنا چاہئے‘‘۔ محمد خورشید کا مزید کہنا تھا کہ ’’میں گلگت بلتستان کا رہائشی ہوں اور بیس سال سے چین میں کاروبار کر رہا ہوں۔ دس سال قبل چین کی مقامی خاتون سے شادی کی، جس سے میری ملاقات چین میں کاروبار کے دوران ہوئی تھی۔ میں نے شادی کی پیش کش کی تو یہ پیش کش قبول کرلی گئی۔ جس کے بعد ہم رشتۂ ازواج میں بندھ گئے۔ ان دس برسوں میں ہمارے دو بچے ہوئے۔ اس دوران ہم دونوں میاں بیوی نے کاروبار کو خوب ترقی دی اور اپنا بزنس دنیا کے پانچ ممالک تک پھیلانے میں کامیان ہو گئے۔ یورپ تک کاروبار پھیلانے کے بعد ہم چاہتے تھے کہ یورپ ہی کے کسی ملک میں رہائش اختیارکرلیں۔ اس کے لئے ابتدائی کاروباری سروے بھی مکمل کرلئے گئے تھے۔ مگر دو سال پہلے اس وقت ہماری مشکلات کا آغاز ہونا شروع ہو گیا جب مقامی پولیس کے لوگوں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور مجھے بتایا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تمہاری بیوی کو ری ایجوکیشن سینٹر میں لایا جائے۔ ایسا کیوں کیا جا رہا تھا اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ میرے چین میں بہت دوست ہیں۔ میں سب کے پاس جاکر التجائیں کرتا رہا کہ کچھ کریں، میری مدد کریں۔ ان سب نے میرے ساتھ ہمدری کا اظہار تو کیا، مگر کوئی بھی مدد کو تیار نہیں ہوا۔ پھر تقریباً ڈیرھ سال قبل ایک روز پولیس اہلکار میرے گھر پر آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم آپ کی بیوی کو لے کر جارہے ہیں اور اسے اپنے ساتھ کوئی بھی چیز لے کر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے کچھ مزاحمت کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس موقع پر ایک اہلکار نے میرے سامنے میری بیوی کے چہرے پر نقاب ڈالا اور اسے بازوئوں سے پکڑ کر گھیسٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔ اپنی بیوی کی گرفتاری کے بعد میں نے اپنے بچوں کو پاکستان لانے کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ مگر جب بیوی کا پاسپورٹ پیش کرکے بچوں کا پاسپورٹ بنانا چاہا تو مجھے بتایا گیا کہ بچوں کے پاسپورٹ بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے اپنی ساس سے مدد طلب کی اور ان سے کہا کہ وہ میرے گھر پر آکر بچوں کی دیکھ بھال کریں‘‘۔ متاثرہ پاکستانی شہری کا ایک سوال پر کہنا تھا کہ ’’بظاہر مجھ پر تو چین میں کوئی پابندیاں نہیں۔ میں اہلیہ کی گرفتاری کے بعد کئی بار پاکستان آیا اور گیا ہوں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ مگر میرا کاروبار روز بروز تباہ ہو رہا ہے۔ اب اس کوشش میں مصروف ہوں کہ اپنے سرمائے میں سے اگر کچھ محفوظ کرلوں تو غنیمت ہوگی۔ ان ڈیڑہ برسوں کے دوران درخواستوں اور اپیلوں کے باوجود تاحال میری بیوی سے میری ملاقات نہیں کروائی گئی۔ چینی حکام کو گھر میں موجود قرآن مجید پر اعتراض تھا۔ کچھ ایسے لوگوں سے تعلقات پر بھی وہ پوچھ گچھ کرتے رہے جو اسلام پر عمل پیرا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری بیوی کو اب ری ایجوکیشن سینٹر کے نام پر نظر بند رکھا گیا ہے۔ اس کی گرفتاری کے شروع کے دنوں میں تو اسے سے بات چیت نہیں ہوتی تھی، مگر اب کچھ عرصہ سے ہر دس روز بعد میری بیوی کی فون کال آتی ہے۔ اس کال کا دورانیہ صرف پانچ منٹ ہوتا ہے اور اس دوران وہ صرف میرا حال چال پوچھتی ہے اور میں اس کا حال احوال پوچھتا ہوں۔ وہ مجھے بہت تسلی دیتی ہے کہ میں ٹھیک ہوں اور جلد آجائوں گی اور اس موقع پر وہ بچوں کا بھی پوچھتی ہے۔ اپنے پانچ منٹ میں سے دو تین منٹ بچا کر وہ اپنی ماں کے ساتھ بھی بات کرتی ہے‘‘۔ محمد خورشید نے بتایا کہ ’’میں گلگت بلتستان کے کم از کم 25 سے زائد افراد کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، جو اسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جس سے میں گزر رہا ہوں۔ جبکہ اطلاعات ہیں کہ پورے پاکستان سے کم از کم تین سو کے قریب شہری اس صورت حال سے متاثر ہیں۔ ہم حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کرکے مجھے اور دیگر افراد کو اس عذاب سے نجات دلائے۔ اب ہمارے آپس میں رابطے شروع ہوگئے ہیں۔ ہر کوئی اپنی بیوی، بچوں اور کاروبار کے حوالے سے مایوس نظر آرہا ہے۔ ہر طرف سے یہی آواز اٹھ رہی ہے کہ اب ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ ہمارے درمیان جو مشاورت چل رہی ہے، اس میں سب سے زیادہ یہ تجویز آئی ہے کہ ہمیں پاکستان میں چین کے سفارت خانے کے باہر تادم مرگ بھوک ہڑتال پر اس وقت تک بیٹھ جانا چاہیے، جب تک ہمیں ہماری بیویاں واپس لا کر نہیں دی جاتیں اور ہمارے بچوں، کاروبار اور سرمائے کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت فراہم نہیں کی جاتی‘‘۔
٭٭٭٭٭