عباس ثاقب
میں نے تیزی سے آگے بڑھ کر تالے کا جائزہ لیا۔ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ انتہائی قریب سے بارہ بور کے کارتوس کا نشانہ بننے کے باوجود تالے کا کچھ نہیں بگڑا ہے۔ لیکن پھر میری نظر زنجیر والی کنڈی کے دروازے میں پیوست جوڑ پر پڑی، جو چھرّوں کی پوچھاڑ سے ضرب کھاکر اندر کی طرف دھنس گیا تھا۔ اس کے ارد گرد کی لکڑی بھی ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔ میں نے کنڈی کی زنجیر کو پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا تو وہ اس جوڑ کے پاس سے اکھڑ گئی اور دروازے کا وہ پٹ اندر کی طرف کھلتا چلا گیا۔
میں نے دروازے کا دوسرا پٹ بھی اندر دھکیلا اور دھیمے لہجے میں آواز لگائی۔ ’’امر دیپ بھائیا، باہر آجاؤ۔ مجھے آپ کی مدد چاہیے‘‘۔
میری بات سمجھنے میں امر دیپ کو محض ایک لمحہ لگا اور وہ مانو کو گود میں اٹھائے کمرے سے باہر آگیا۔ بچہ اس وقت خاصا سہما ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے امر دیپ کو کہا۔ ’’مانو کو آپ فی الحال اس کونے میں کھڑا کر دیں اور یہ بندوق پکڑ لیں‘‘۔
امر دیپ نے شاٹ گن تھامتے ہوئے پوچھا۔ ’’مجھے بتاؤ تو سہی بھائی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’فی الحال بس اتنا سمجھ لیں کہ وہ دونوں بدمعاش اس کمرے میں ہیں اور ان کے پاس کم ازکم ایک ریوالور موجود ہے‘‘۔
امر دیپ نے میری بات غور سے سنی اور پھر کہا۔ ’’ہمارے پاس کتنے ہتھیار اور ایمونیشن ہے؟‘‘۔
میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کو کہا۔ میں اپنے پاس موجود اسلحے کی تعداد اور مقدار اندر موجود ڈاکوؤں کے علم میں کیسے لاسکتا تھا۔ تبھی مجھے اپنی ایک اور حماقت کا ادراک ہوا۔ میں نہایت بے تکلفی سے اپنے ریوالور کی امر دیپ کے سامنے نمائش کر رہا تھا، حالانکہ مجھے اپنے پاس موجود ہتھیار کی موجودگی ہر قیمت پر اس سے پوشیدہ رکھنی تھی۔
میں نے بادل نخواستہ اشاروں سے امر دیپ کو بتایا کہ ہمارے پاس دو چھوٹے ہتھیار اور یہ شاٹ گن ہے، جس کی ایک نال خالی ہو چکی ہے۔
میں نے سرگوشی میں امر دیپ کو آگے کا لائحہ عمل بتایا اور تیزی سے دوڑتا ہوا ڈاکوؤں والے کمرے کے کھلے دروازے کے سامنے سے گزر کر دوسری طرف چلا گیا۔ اس دوران کمرے میں محصور ڈاکوؤں کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ شاید وہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ ممکن ہے انہوں نے شاٹ گن کے فائر کو بھی اپنے لیے انتباہ سمجھا ہو۔ اگر وہ یہ جان جاتے کہ میں دروازے کے سامنے سے ہٹ چکا ہوں تو موقع سے فائدہ اٹھاکر یقیناً دروازہ اندر سے بند کر لیتے۔
مناسب موقع تھا کہ ان بدبختوں کو چونکا دیا جاتا۔ اچانک برآمدے میں امر دیپ کی بھاری، گرج دار للکار گونجی۔ ’’سردار امر دیپ سنگھ پر ہاتھ ڈال کر آج تم لوگوں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے۔ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو بندوق باہر پھینک دو اور دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر باہر آجاؤ‘‘۔
مجھے لگا کہ امر دیپ کے انتباہ نے کمرے میں کچھ نہ کچھ کھلبلی ضرور مچائی ہے۔ غالباً صورتِ حال مزید بگڑنے کا ادراک ہونے پر وہ دونوں آپس میں مشورہ یا بحث کر رہے ہیں۔ تاہم کوئی فوری ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
کچھ لمحے انتظار کے بعد میں نے غصیلے لہجے میں کہا۔ ’’لگتا ہے تم لوگ گولیوں کی زبان ہی سمجھتے ہو۔ میں نے تم سے وعدہ کیا ہے ناں کہ ہم تمہیںگولی نہیں ماریں گے، بلکہ پولیس کے حوالے کریں گے۔ اچھی طرح سوچ لو۔ سال دو سال کی جیل کاٹنا چاہتے ہو یا کتے کی موت ہی مرنا ہے‘‘۔
اچانک مجھے دروازے کے پٹ کی آڑ میں انسانی جسم کی جھلک نظر آئی۔ وہ شاید جان پر کھیل کر ہم میں سے کسی کو گولی کا نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ خطرہ مول لینے کی گنجائش ہی کہاں تھی۔ میں نے تاک کر گولی چلا دی۔ کمرے میں گونجنے والی کرب ناک چیخ نے بتایا کہ میرا نشانہ ٹھیک لگا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کھلے دروازے کے عین سامنے بھد سے گر گیا۔ میں نے دیکھا وہ نسبتاً کم عمر والا ڈاکو تھا اور میری چلائی ہوئی گولی اس کی پیشانی میں چھید بنا چکی تھی۔ پہلی نظر میں ہی دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ ہلاک ہوگیا ہے۔
میں مزید گولیاں چلانے کے لیے بالکل تیار تھا۔ لیکن پہلے ڈاکو کے گولی کھاکر گرنے کے ساتھ ہی کمرے کے اندر کی صورتِ حال میں انقلابی تبدیلی رونما ہو چکی تھی۔ میں نے کسی کے درد بھرے انداز میں چیخنے چلانے کی آواز سنی اور پھر بڑی عمر والا ڈاکو بھی دروازے کے سامنے آگیا۔ وہ خالی ہاتھ تھا۔ لیکن میں اس کی چھاتی کا نشانہ لیتے ہوئے دھاڑا۔ ’’ہاتھ سر سے اوپر اٹھاؤ، ورنہ چھلنی کردوں گا!‘‘۔
میں نے اپنی طرف سے پوری گھن گرج اور تحکم اپنے لہجے میں شامل کیا تھا۔ لیکن مجھے لگا کہ اس نے میری بات سنی ہی نہیں، یا سمجھ ہی نہیں سکا۔ وہ چیختے چلاتے، بلبلاتے ہوئے اپنے ساتھی کو جھنجوڑ رہا تھا۔ اس کے منہ سے بار بار ایک ہی فریاد نکل رہی تھی۔ ’’میرا ویر… میرا ویر!‘‘۔
اس کی حالت دیکھ کر میرے دل کو دھچکا لگا اور میرا ریوالور والا ہاتھ جھکنے لگا۔ ڈاکو نے غالباً اپنے چھوٹے بھائی کو سینے سے لگانے کے لیے بانہوں میں لینا چاہا۔ لیکن عین اسی وقت فضا میں ایک اور زبردست دھماکا گونجا اور میں نے اسے ایک زوردار جھٹکا کھاکر پیٹھ کے بل گرتے دیکھا۔
اتنے کم فاصلے سے شاٹ گن کے فائر نے اسے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ شاید چند ہی لمحوں میں اس کی جان نکل گئی تھی۔
یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ میں سن ہوکر رہ گیا۔ پھر میں نے لگ بھگ ناکارہ سماعت کے ساتھ سوالیہ نظروں سے امر دیپ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں مجھے کسی خونخوار درندے کی سی چمک دکھائی دی۔ مجھ سے کچھ کہنے کے بجائے وہ شاٹ گن دیوار کے سہارے کھڑی کر کے دروازے میں جھکا۔ میں نے دیکھا میری گولی کا نشانہ بننے والے ڈاکو کی لاش کے پہلو میں ہاتھ ڈال کر جیسے وہ کچھ ٹٹول رہا ہے۔ وہ اٹھا تو مجھے اس کے ہاتھ میں ایک ریوالور لٹکا نظر آیا۔
اس منظر سے مجھے ذہنی جھٹکا لگا۔ اس مکار ڈاکو نے نفسیاتی داؤ کھیل کر وہ بازی لگ بھگ پلٹ ہی دی تھی، جس میں بزعم خود میں پوری طرح فتح یاب ہو چکا تھا۔ اگر امر دیپ کی تیز نظریں اور خطرہ بھانپنے والا ذہن بر وقت کام نہ دکھاتا تو ان ڈاکوؤں کے بجائے ہم دونوں کی لاشیں یہاں پڑی ہوتیں۔ ریوالور کی موجودگی سے لاپروائی بلاشبہ میری سنگین غلطی تھی۔ جس کا نتیجہ ہمیں موت کے منہ میں پہنچا سکتا تھا۔
امر دیپ نے میری حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’لگتا ہے تم نے کبھی شیر چیتوں کا شکار نہیں کھیلا ہے میرے بھائی! ادھ مرے شکار کو مردہ سمجھ لینے والے شکاری کو خود شکار بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اور انسان سے زیادہ مکار درندہ تو اوپر والے نے کوئی پیدا ہی نہیں کیا، سمجھے!‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭