شیث کا معنی ہے خدا کا عطیہ۔ حضرت آدم و حواؑ دونوں (ماں باپ) نے اپنے اس فرزند کا یہ نام (شیث) اس لئے رکھا تھا کہ حق تعالیٰ نے ان کو یہ ہابیل کے بدلے عطا فرمایا تھا۔ یہ حضرت شیثؑ بہت بڑے پیغمبر ہوئے ہیں۔ حضرت ابوذرؓ حضور اکرمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: خدا عزوجل نے کل ایک سو صحیفے نازل فرمائے اور چار کتابیں نازل فرمائیں اور (صرف) حضرت شیتؑ پر پچاس صحیفے نازل فرمائے۔
محمد بن اسحاقؒ فرماتے ہیں: جب حضرت آدمؑ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے فرزند حضرت شیثؑ کو نصیحت و وصیت فرمائی اور دن رات کی گھڑیوںکی پہچان کروائی اور ان اوقات کی عبادتوں کی تعلیم دی۔ بعد میں ایک بڑے طوفان کے وقوع کی پیش گوئی فرمائی۔ کہا جاتا ہے کہ آج تمام لوگوں کے نسب حضرت شیثؑ پر انتہا کو پہنچتے ہیں، کیونکہ ان کے علاوہ دوسری اولاد اختتام کو پہنچ گئی تھی۔
اور جمعے کے دن جب حضرت آدمؑ وفات پاگئے تو فرشتے حنوط (خوشبو) لے کر حضرت آدمؑ کے پاس آئے اور حق تعالیٰ کی طرف سے جنت کا کفن بھی لائے۔ پھر سیدنا آدمؑ کے فرزند حضرت شیثؑ نے اس کفن میں ان کو کفنایا۔
ابن ضمرۃ سعدیؒ کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں ایک بزرگ کو دیکھا، جو وعظ فرما رہے تھے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ حضرت ابی بن کعبؓ ہیں۔ میں نے سنا، وہ فرما رہے تھے: جب حضرت آدمؑ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو کہا: اے بیٹو! جنت کے پھل کھانے کو میرا دل چاہ رہا ہے۔ بیٹے چلے کہ جنت کے پھل تلاش کر کے لائیں۔ سامنے سے ان کو فرشتے مل گئے، جن کے ساتھ کفن اور خوشبو تھی اور (قبر کھودنے کے آلات) بیلچے، پھاوڑے، ٹوکری وغیرہ اشیاء تھیں تو فرشتوں نے سیدنا آدمؑ کے بیٹوں سے پوچھا ’’اے بنی آدم! کہاں اور کس چیز کی تلاش میں جا رہے ہو؟‘‘ کہا ہمارے والد بیمار ہیں اور جنت کے پھل کھانے کو ان کا جی کر رہا ہے۔ تو فرشتوں نے کہا: واپس چلو، تمہارے والد کا وقت پورا ہوگیا ہے، تو سب واپس آگئے۔ حضرت حوائؑ نے فرشتوں کو دیکھا تو پہچان لیا (یہ تو فرشتے ہیں، مگر سوچنے لگیں کہ کس مقصد کے لئے آئے ہیں؟) پھر آدمؑ کے لیے پناہ مانگنے لگیں (تاکہ فرشتے ان کو چھوڑ دیں) تو حضرت آدمؑ نے حضرت حواؑ سے فرمایا مجھے چھوڑو۔ میں تم سے پہلے کا پیدا ہوا ہوں، لہٰذا میرے اور میرے رب کے فرشتوں کے درمیان راستہ خالی کردو۔
تب فرشتوں نے ان کی روح قبض کرلی۔ غسل دیا، کفن دیا، خوشبو لگائی۔ پھر گڑھا کھودا، قبر بنائی اور حضرت آدمؑ پر نماز جنازہ ادا کی۔ پھر ان کو قبر میں داخل کیا اور قبر کے اوپر مٹی ڈالی۔ پھر کہا: اے آدم کی اولاد! یہی تمہارا طریقہ ہے۔ (اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں) (بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭