غزوئہ احد کے شہداء کی تدفین اور خدا عزوجل کی ثناء و دعا سے فارغ ہو کر رسول اقدسؐ نے مدینے کا رخ فرمایا، جس طرح دورانِ کارزار اہلِ ایمان صحابہؓ سے محبت وجاں سپاری کے نادر واقعات کا ظہور ہوا تھا، اسی طرح اثنائے راہ میں اہلِ ایمان صحابیاتؓ سے صدق و جاں سپاری کے عجیب عجیب واقعات ظہور میں آئے۔
چنانچہ راستے میں آنحضورؐ کی ملاقات حضرت حَمنہ بنت جحشؓ سے ہوئی، انہیں اپنے بھائی ابن جحشؓ کی شہادت کی خبر دی گئی، انہوں نے دعائے مغفرت کی، پھر ان کے ماموں حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی شہادت کی خبر دی گئی، انہوں نے پھر دعائے مغفرت کی، اس کے بعد ان کے شوہر حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کی خبر دی گئی تو تڑپ کر چیخ اٹھیں اور دھاڑ مار کر رونے لگیں۔ رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’عورت کا شوہر اس کے یہاں ایک خصوصی درجہ رکھتا ہے۔‘‘ (ابن ہشام 2/98)
اسی طرح آپ کا گزر بنودینار کی ایک خاتون کے پاس سے ہوا، جس کے شوہر، بھائی اور والد تینوں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے، جب انہیں ان لوگوں کی شہادت کی خبر دی گئی تو کہنے لگیں کہ ’’رسول اقدسؐ کا کیا ہوا؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’ام فلاں! حضور اقدسؐ بخیر ہیں اور جیسا تم چاہتی ویسے ہی ہیں۔‘‘
خاتون نے کہا: ’’ذرا مجھے دکھلادو، میں بھی آپؐ کا وجود مبارک دیکھ لوں۔‘‘ لوگوں نے انہیں اشارے سے بتلایا، جب ان کی نظر آپؐ پر پڑی تو بے ساختہ پکار اٹھیں: ’’کل مصیبۃ بعدک جلل‘‘ یعنی ’’آپؐ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔‘‘ (ایضاً)
اثنائے راہ ہی میں حضرت سعد بن معاذؓ کی والدہ آپؐ کے پاس دوڑتی ہوئی آئیں، اس وقت حضرت سعد بن معاذؓ آپؐ کے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھے، کہنے لگے: ’’حضور! میری والدہ ہیں۔‘‘ آپؐ ان کے استقبال کے لیے رک گئے، جب وہ قریب آگئیں تو آپؐ نے ان کے صاحبزادے عمرو بن معاذؓ کی شہادت پر کلماتِ تعزیت کہتے ہوئے انہیں تسلی دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔ کہنے لگیں: ’’جب میں نے آپؐ کو بہ سلامت دیکھ لیا تو میرے لیے ہر مصیبت ہیچ ہے۔‘‘
پھر رسول اقدسؐ نے شہدائے احد کے لیے دعا فرمائی اور فرمایا: ’’اے امِ سعد! تم خوش ہو جائو اور شہداء کے گھر والوں کو خوش خبری سنادو کہ ان کے شہداء سب کے سب ایک ساتھ جنت میں ہیں اور اپنے گھر والوں کے بارے میں ان سب کی شفاعت قبول کرلی گئی ہے۔‘‘ کہنے لگیں: ’’حضور!! ان کے پسماندگان کے لیے بھی دعا فرما دیجیے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’خدایا! ان کے دلوں کا غم دور کر، ان کی مصیبت کا بدل عطا فرما اور باقی ماندگان کی بہترین دیکھ بھال فرما۔‘‘ (السیرۃ الحلبیہ 2/ 47)
بیشتر روایتیں متفق ہیں کہ مسلمان شہداء کی تعداد ستر تھی، جن میں بھاری اکثریت انصار کی تھی، یعنی ان کے 65 آدمی شہید ہوئے تھے۔ 41 خزرج سے اور 24 اوس سے۔ ایک آدمی یہود سے قتل ہوا تھا اور مہاجرین شہداء کی تعداد 4 تھی۔ باقی رہے قریش کے مقتولین تو ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ان کی تعداد 22 تھی، لیکن اصحاب مغازی اور اہلِ سیر نے اس معرکے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں اور جن میں ضمناً جنگ کے مختلف مرحلوں میں قتل ہونے والے مشرکین کا تذکرہ آیا ہے، ان پر گہری نظر رکھتے ہوئے دقت پسندی کے ساتھ حساب لگایا جائے تو یہ تعداد 22 نہیں، بلکہ 38 ہوتی ہے۔ (ابن ہشام 2/122 تا 129، فتح الباری 7/351 اور غزوہ احد تصنیف محمد احمد باشمیل ص 278، تا 280)
٭٭٭٭٭