حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

سید ارتضی علی کرمانی
ایک روز حضرت پیر صاحبؒ سواری سے اتر کر مہمان خانے میں داخل ہوئے، دیکھا کہ وہاں ایک نابینا ارادت مند بھی موجود تھا۔ آپ نے دیکھا تو فرمایا ’’میں کل پاک پتن شریف کے سفر پر جا رہا ہوں، تم اب واپس اپنے وطن جاؤ، میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ پر رحم فرمائے گا۔‘‘ اس نابینا نے آپ کی آواز پہچان لی اور کہنے لگا ’’آپ عبد القادر (قادر مطلق کے بندے) ہیں، خدا کیلئے مجھے بینائی دلوا دیجئے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’نہیں ایسا مت کہو، کار ساز اور بینائی عطا کرنے والا حق تعالیٰ ہے، ہاں جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اپنے خاص بندوں کا دل اس طرف متوجہ کر دیتا ہے۔‘‘
یہ فرما کر آپ چلے گئے۔ اگلے روز جب یہی شخص واپس جانے لگا تو ریلوے اسٹیشن جاتے ہوئے راستے میں اس کی بینائی درست ہوگئی۔ بیٹے سے کہا کہ ’’میری لاٹھی کو چھوڑ دو، میری بینائی واپس آگئی ہے اور مجھے سب کچھ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ میاں حیدر بخش صاحب چشتی کا بیان ہے کہ ’’یہ واقعہ میرے سامنے پیش آیا تھا اور میں نے خود اس شخص کو ریلوے اسٹیشن تک خود جاتے دیکھا ہے۔‘‘
خوشاب سے ایک شاہ صاحب دونوں پیروں سے معذور اور اپاہج ہو کر حضرت صاحبؒ کے پاس گولڑہ آئے۔ حضرت صاحب کچھ عرصہ تو ان کو دم فرماتے رہے، مگر کچھ افاقہ نہیں ہوا، وہ شاہ صاحب مسجد کے سامنے پڑے رہتے۔ ایک روز آپ نے ان کو فرمایا کہ شاہ صاحب آپ واپس چلے جایئے، ابھی وقت نہیں آیا کہ آپ تندرست ہوں۔ آپ کے حکم کے مطابق شاہ صاحب واپس چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد جب حضرت صاحب سیال شریف کے عرس میں شرکت کیلئے جا رہے تھے تو خوشاب ریلوے اسٹیشن پر آپؒ نے انہی شاہ صاحب کو گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے دیکھا کہ آپ کے دیدار کے لئے آئے ہیں۔
آپ نے پہچان لیا اور فرمایا کہ ’’شاہ صاحب! وقت آگیا ہے، میں دعا کرتا ہوں۔‘‘ جب ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی تو شاہ صاحب اس وقت سب کے سامنے دونوں پیروں پر کھڑے ہوگئے، آپ نے تبسم فرمایا۔ وہ شاہ صاحب آپ کے ساتھ ہی سیال شریف گئے اور پورے عرس میں آپؒ کے ساتھ ہی رہے۔
حضرت صاحبؒ نے اپنے ایک ملفوظ میں قبولیت دعا کے اوقات اور سالک کی توجہ کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ اور بھی قابل ذکر ہے۔ ہوا یوں کہ گھوٹہ ملتان کے ایک اپاہج آپ کے پاس آیا۔ آپ نے خدام سے فرمایا کہ تہجد کے بعد مجھے یاد دلانا تاکہ اس کے حق میں دعا کی جائے۔ چنانچہ رب تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس کو صحت عطا فرمائی۔
ملک غلام فرید صاحب ٹوانہ ایس ایس پی لاہور کے والد ملک محمد خان صاحب مرحوم 1905ء میں ساہیوال (منٹگمری) میں ڈپٹی انسپکٹر پولیس تھے۔
حضرت صاحبؒ نے پاک پتن شریف جاتے ہوئے ان کے ہاں قیام فرمایا۔ ان کی اولاد نرینہ نہیں رہتی تھی اور چند ہفتے پہلے ایک نومولود فرزند فوت ہوگیا تھا۔ آپؒ نے مستورات کی گذارش پر دعا فرمائی اور ملک غلام فرید صاحب کی والدہ صاحبہ کو مخاطب کر کے فرمایا ’’خدا نے چاہا تو اس کے بعد جب تم میرے سامنے آؤگی، تو تمہاری گود میں ایک عمر دراز بیٹا ہوگا۔‘‘ چنانچہ ویسا ہوا۔ ملک محمد خان صاحب کی اپنی بیعت حضرت خواجہ بخش تونسوی کے ساتھ تھی۔ جبکہ ان کے فرزند کی بیعت حضرت صاحبؒ کے ساتھ تھی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment