لورین بوتھ کیسے مسلمان ہوئی

ضیاء الرحمٰن چترالی
لورین بوتھ (Lauren Booth) معروف برطانوی صحافی اور سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سالی ہیں۔ وہ بائیس جولائی 1967ء کو لندن میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1997ء میں صحافتی کیریئر کا آغاز کیا اور 2010ء میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ الجزیرہ سمیت مختلف ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے انٹرویوز میں انہوں نے اپنے قبول اسلام پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے:
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ میں اسلام قبول کرنے کے لئے ہرگز سرگرم نہ تھی، نہ ہی میں اسلام کا مطالعہ کر رہی تھی، بات دراصل یہ ہے کہ جب آپ ایک مسلم معاشرے میں مسلمانوں کے درمیان رہ کر ایک طویل عرصے سے کام کر رہے ہوں، تو لامحالہ ان سے روزمرہ کی گفتگو کے دوران ان کے دین اور قرآن کے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات حاصل ہوتی ہی رہتی ہیں، میں یہ سمجھتی ہوں کہ میں نے اتفاقاً مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے تھوڑا بہت قرآن کے بارے میں جانا، اس دوران یہ بھی اندازہ ہوا کہ اگر آپ نے اسلام میں دلچسپی لیتے ہوئے اس کے بارے میں جاننے کی خواہش ظاہرکی تو مسلم امہ کی تمام تر محبت، یگانگت اور خلوص کو آپ یقیناً محسوس کئے بنا نہ رہ سکیں گے۔
اپنے اسلام قبول کرنے کے حوالے سے لورین بوتھ کا کہنا تھا سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسلام مسلمانوں کی محبت اور دوستی میں قبول نہیں کیا، بلکہ جن حالات میں، میں مسلمانوں کے درمیان رہ کر ایک طویل مدت تک کام کرتی رہی ہوں، اس دوران نہ جانے کس وقت میرا اپنے رب سے ربط قائم ہو گیا، میں نے خدا کو زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کی اور اب میں امید کرتی ہوں کہ میں اپنی اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب ہو سکی ہوں۔
اسلام کی جانب یہ سفر میری زندگی کا نہایت خوشگوار سفر ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کب اس راہ کی مسافر بنی، حالات سازگار ہیں اور ساتھی مسافر گرمجوش، اس سفر میں، میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہوں اور وقت کی گرم آندھی اور راہ کی تمام رکاوٹوں کے باوجود اسلام کے راستے پر میرا یہ سفر تیزی سے گامزن ہے۔
اگر مجھ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ ایک انگریز صحافی، ایک تنہا دو بچوں کی ماں نے مغربی میڈیا کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ مذہب کو کس طرح قبول کیا تو اس کے جواب میں، میں اپنے اس انتہائی روحانی تجربے کا حوالہ ضرور دینا چاہوں گی، جو مجھے ایران کی ایک مسجد میں ہوا، جس نے میرے دل کی دنیا بدل دی، مگر اسلام قبول کرنے کے حوالے سے اگر ماضی میں جھانکا جائے تو اس کی بنیاد غالباً اس وقت پڑ گئی تھی، جب میں جنوری 2005ء میں اکیلی فلسطینی علاقے ویسٹ بنک (مغربی کنارہ) میں برطانوی جریدے دی میل کے لئے فلسطینی صدارتی انتخابات کی کوریج کے لئے پہنچی تھی، یہاں میں یہ بات واضح کر دوں کہ اپنے اس سفر سے پہلے مجھے کبھی بھی مسلمانوں یا عربوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔
جب میں نے اپنا مشرقِ وسطیٰ کا یہ سفر شروع کیا تھا تو میرا ذہن مغربی میڈیا کے اس پروپیگنڈے کی وجہ سے سخت مخدوش تھا، جو اس نے دنیا کے اس حصے کے لوگوں کے بارے میں جو حضرت محمدؐ کے ماننے والے تھے، جاری رکھا ہوا تھا اور انہیں بنیاد پرست، متعصب، مذہبی انتہا پسند، خودکش حملہ آور غوا کاراور جہادی قرار دیا جاتا تھا، جبکہ میرا یہ تجربہ ان تمام تصورات کے بالکل برعکس ثابت ہوا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment