معارف و مسائل
اولین و آخرین سے کیا مراد ہے :
یہاں اولین و آخرین کی تقسیم کا دو جگہ ذکر آیا ہے، اول سابقین مقربین کے سلسلہ میں، دوسرا اصحاب الیمین یعنی عامہ مومنین کے سلسلے میں، پہلی جگہ یعنی سابقین میں تو یہ فرق کیا گیا ہے کہ یہ سابقین مقربین اولین میں سے ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور آخرین میں سے کم ہوں گے، جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے اور دوسری جگہ اصحاب الیمین کے بیان میں اولین و آخرین دونوں میں لفظ ثلہ وارد ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ اصحاب یمین اولین میں سے بڑی جماعت ہوگی، اسی طرح آخرین میں سے بھی بڑی جماعت ہوگی۔
اب قابل غور یہ امر ہے کہ اولین سے مراد کون ہیں اور آخرین سے کون۔ اس میں حضرات مفسرین کے دو قول ہیں، ایک یہ کہ آدم علیہ السلام سے لے کر قرب زمانہ خاتم الانبیائؐ تک کی تمام مخلوقات اولین میں داخل ہیں اور خاتم الانبیائؐ سے لے کر قیامت تک آنے والی مخلوق آخرین میں داخل ہے۔
یہ تفسیر مجاہد اور حسن بصری سے ابن ابی حاتم نے سند کے ساتھ نقل کی ہے اور ابن جریر نے بھی اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے، بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے، جو اوپر بیان ہو چکا ہے اور اس کی دلیل میں حضرت جابرؓ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے، یہ حدیث ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ اس طرح نقل کی ہے کہ جب پہلی آیت جو سابقین مقربین کے سلسلے میں آئی ہے نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطابؓ نے تعجب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور! کیا پچھلی امتوں میں سابقین زیادہ ہوں گے اور ہم میں کم ہوں گے؟ اس کے بعد سال بھر تک اگلی آیت نازل نہیں ہوئی، جب ایک سال کے بعد دوسری آیت نازل ہوئی تو رسول اکرمؐ نے فرمایا:
’’اے عمر! سنو! جو خدا نے نازل فرمایا کہ اولین میں سے بھی ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور آخرین میں سے بھی ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور یاد رکھو کہ آدم (علیہ السلام) سے مجھ تک ایک ثلہ ہے اور میری امت دوسرا ثلہ۔‘‘ (ابن کثیر) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭