عبدالمالک مجاہد
بنو اسرائیل میں ایک عابد گزرا ہے، جس کا نام برصیصا تھا۔ اس نے اپنے گرجے میں چالیس سال تک حق تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں زندگی بسر کی۔ شیطان نے اسے عبادت سے غافل کرنے اور برائی کی راہ پر لگانے کی بہتیری کوشش کی، مگر اس کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ عابد نے شیطانی وسوسوں کو کوئی اہمیت نہ دی اور اپنے دین کے مطابق رب تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا۔ شیطان بھی مگر ناامید ہونے والا نہیں، وہ آخری حد تک کوشش اور محنت کرتا ہے کہ بندے کو راہ راست سے ہٹا کر خواہش نفس کی بندگی پر لگا دے۔
ایک دن ابلیس نے سرکش شیاطین کو جمع کیا اور پوچھا: ’’کیا تم میں سے کوئی ایسا قابل شیطان ہے، جو بنو اسرائیل کے عابد و زاہد برصیصا عابد کو بہکا کر سیدھی راہ سے ہٹا دے اور میرے لیے راحت کا سبب بنے۔ کوئی ہے جو میری دلجوئی کرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘ ابیض نامی شیطان بولا: میرے آقا! کیوں نہیں، میں آپ کی مراد پوری کروں گا اور ہر ممکن طریقے سے عابد کو شہوات کی پیروی کا راستہ دکھلاؤں گا۔
ابیض شیطان نے بہت غور فکر سے ایک منصوبہ تیار کیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے راہبوں جیسی شکل و صورت اختیار کی اور برصیصا عابد کے گرجے میں پہنچ کر اسے آواز دی۔ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے کئی جتن کیے، مگر برصیصا عابد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ برصیصا دن اور رات کے اکثر حصوں میں مشغول عبادت رہتا اور ہر دن روزہ رکھتا۔ اس کا معمول تھا کہ وہ ہر دسویں دن اپنی نماز سے فارغ ہو کر دوسرے امور کی جانب متوجہ ہوتا تھا اور دسویں دن ہی روزے سے ناغہ کرتا تھا۔ دسویں دن وہ اپنی دنیاوی ضروریات کی تکمیل کرتا اور اپنے گرجے کے ضروری امور نمٹا لیتا۔ جب شیطان نے دیکھا کہ عابد اس کا کوئی جواب نہیں دے رہا ہے تو اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے پلان کے اگلے حصے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ وہ بھی گرجے کے نیچے کھڑا ہو کر عبادت میں مصروف گیا۔ اس نے اس قدر تسلسل اور توجہ کے ساتھ بظاہر بڑے پارساؤں کی طرح عبادت کی کہ نقل پر اصل کا گمان ہونے لگا۔ برصیصا اپنی عبادت سے فارغ ہوکر ادھر متوجہ ہوا تو شیطان کو اچھی ہیئت میں بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا۔
برصیصا اس کے زہد وعبادت سے بہت متاثر ہوا اور اسے آواز دے کر پوچھا: اے عابد و زاہد انسان! بتاؤ تمہاری حاجت کیا ہے؟
شیطان نے کہا: میری خواہش ہے کہ میں آپ کے ساتھ رہوں، آپ کے عمل سے استفادہ کروں، آپ کے آداب اپنائوں اور ہم دونوں عبادت بھی ایک ساتھ ہی کریں تاکہ میرا بھی بیڑا پار ہو جائے اور میں بھی کامیابی حاصل کر سکوں۔
برصیصا نے یہ سن کر کہا: اے بھلے شخص! تیری خواہش تو اچھی ہے، لیکن عبادت ہی میری مشغولیت ہے۔ اگر میں تیرے ساتھ رہا تو میری مشغولیت میں کمی آ جائے گی۔ یہ کہہ کر برصیصا اس کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی عبادت میں لگ گیا۔ ابیض شیطان بھلا ہار ماننے والا کب تھا۔ اس نے برصیصا کی بات سنی اور وہ بھی ایک بار پھر نماز پڑھنے لگا اور عبادت میں مشغول ہوگیا۔ برصیصا نے چالیس دن تک اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ چالیس دن بعد ادھر متوجہ ہوا تو دیکھا کہ نیا عابدصاحب تو بڑے انہماک سے نماز پڑھ رہا ہے۔اس کی کثرت عبادت کو دیکھ کر برصیصا کو اس کے مقابلے میں اپنی عبادت ہلکی محسوس ہونے لگی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭