سرفروش

عباس ثاقب
مجھے اپنی حماقت کا شدت سے احساس تھا، لہٰذا امر دیپ کی بات سے اختلاف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اس دوران میرے دماغ میں اس جگہ ہمیں لاحق خطرات کا احساس ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زور پکڑ رہا تھا۔ امر دیپ برآمدے کے کونے میں دبکے مانو کو لے کر آیا تو میں نے تسلی دینے کے لیے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’امر دیپ بھائی، ہمیںاس جگہ سے جلدازجلد نکل جانا چاہیے۔ رات کے سناٹے میں گولیاں چلنے کی آوازیں جانے کہاں تک پہنچی ہوں۔ اس جنگل کو ٹھکانا بنانے والے مزید ڈاکو بھی صورتِ حال جاننے کے لیے یہاں پہنچ سکتے ہیں‘‘۔
میری بات سن کر امر دیپ چونکا۔ ’’یار یہ بات تو میں نے سوچی ہی نہیں۔ ہم لوگ تو واقعی شدید خطرے میں ہیں۔ فٹا فٹ یہاں سے نکل چلو۔ تم جیپ پر ہی یہاں آئے ہو ناں؟ کہاں کھڑی کی ہے؟‘‘۔
امر دیپ نے شاٹ گن وہیں پھینک کر مانو کو گود میں اٹھالیا تھا۔ میں نے تیل کا لیمپ دروازے کی دہلیز سے اٹھاکر تیزی سے برآمدے کے بڑے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ’’میں آپ کی جیپ میں ہی یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں اسے جنگل میں چھپاکر یہاں پہنچا ہوں۔ آپ چلیے تو سہی، راستے میں سب بتادوں گا‘‘۔
ہم نے دروازے میں لگی کنڈی کھولی اور لیمپ کو آگے بڑھاتے ہوئے جائزہ لیا۔ میرا ریوالور گولی چلانے کے لیے بالکل تیار تھا۔ سامنے ایک اور لمبوترا سا، بہت بڑا سا برآمدہ دکھائی دیا۔ میں نے ریوالور کی نال کا رخ بدلتے ہوئے برآمدے کا جائزہ لیا۔ مجھے وہاں بھی دو بڑے اور تین چھوٹے دروازے دکھائی دیئے، لیکن وہ سب کے سب بند یا شاید مقفل تھے۔ وہاں کے فرش اور در و دیوار اور چھت کی حالت قدرے بہتر تھی۔ یہ جگہ کئی برسوں سے استعمال نہیں ہوئی تھی، اور نہ ہی صفائی اور دیکھ بھال کی گئی تھی۔ میری نظر یں سامنے دکھائی دینے والے عالی شان مرکزی دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔ شاید دیار کی لکڑی کے اس دروازے پر خوب صورت بیل بوٹوں کے نقش ابھرے ہوئے تھے اور میرے لیے تشویش کی بات یہ تھی کہ وہ مضبوط دروازہ اس وقت بند دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے امر دیپ کو کہا۔ ’’یہ دروازہ تو ٹوٹنا مشکل ہے، لگتا ہے ہمیںڈاک بنگلے کے پچھلے حصے سے ہی نکلنا پڑے گا‘‘۔
امر دیپ نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’نہیں یار، ہم اسی دروازے سے اندر آئے تھے۔ لیکن اس وقت ان بدمعاشوں میں سے ایک نے دستک دے کر یہ دروازہ کھلوایا تھا۔ گھوڑے بھی یہیں سے پچھلے حصے میں لے جائے گئے تھے۔ ذرا دھیان سے دیکھو، یہاں بھی اندر سے کنڈیاں لگی ہوں گی‘‘۔
میں امر دیپ کی تجویز کے مطابق لیمپ لیے دروازے کی طرف بڑھا تو اس کی بات درست نکلی۔ دروازے کے دونوں پٹوں کے نچلے حصے میں اوپر نیچے حرکت کرنے والی چٹخنیاں جڑی ہوئی تھیں، جو پختہ زمین میں بنے سوراخوں میں گھس کر دروازے کو اندر سے بندکر دیتی تھیں۔ میں نے لیمپ ایک طرف رکھا اور ان میں سے ایک چٹخنی کو سوراخ سے باہرکھینچنے کی کوشش کی۔ مجھے زیادہ زور نہیں لگانا پڑا۔ دروازے کا پٹ دھیرے دھیرے کھول کر میں نے باہر جھانکا تو سردیوں کی یخ بستہ رات گہری ہونے پر جنگل مزید خوابیدہ نظر آیا۔ وہاں تا حد نظر پھیلی مدھم چاندنی میں کوئی نقل و حرکت دکھائی نہ دی تو میں نے امر دیپ کو سب ٹھیک ہے کا اشارہ کر کے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔
باہر نکلنے کے بعد میں نے دروازہ عقب میں بندکر دیا۔ لیمپ ہم نے وہیں چھوڑ دیا تھا۔ ڈاک بنگلے کے سامنے موجود کھلی جگہ حتی الامکان تیزی سے پارکرتے ہوئے میں بے تابی سے آس پاس کے ماحول پر نظریں دوڑاتا رہا۔ لیکن ڈاک بنگلے کی جانب آتے راستے کے دونوں طرف اگے درختوں کے تاریک سائے میں پہنچنے تک ہمیں کسی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اب میری نظریں درختوں کا وہ جھنڈ تلاش کر رہی تھیں، جس کے درمیان میں نے جیپ کھڑی کی تھی۔ بالآخر محض اندازے سے میں جیپ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
امر دیپ مانو کو جیپ کی نشست پر اتار کر مڑا اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ سکتا، والہانہ انداز میں اس نے مجھے سینے سے لپٹا لیا۔ وہ ساتھ ساتھ جوش اور محبت کے ملے جلے جذبات سے لب ریز لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ’’تم نے تو کمال کر دیا میرے بھائی۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی آسانی سے ہمیں ان لٹیروں کے چنگل سے نجات مل پائے گی۔ میری تو خیر ہے، لیکن مجھے مانو کی بہت فکر تھی۔ تم نے آج امر دیپ کو خرید لیا ہے‘‘۔
میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’مجھے اپنے ضمیر کو جواب دینا تھا بھائی۔ اگر میں تم دونوں کو ان بدمعاشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا جاتا تو یہ مجھے کچوکے دے دے کر مار ڈالتا۔ میں نے تو بس اپنی سی کوشش کی تھی۔ واہگورو کی کرپا ہے کہ اس نے مجھے کامیاب کر دیا‘‘۔
امر دیپ تحسین و ستائش کا سلسلہ شاید مزید آگے بڑھانا چاہتا تھا، لیکن میں نے کہا کہ یہ سب باتیں راستے میں ہوجائیں گی۔ ہمیں جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ اس نے میری تائید کی۔ وہ جیپ خود چلانا چاہتا تھا، لیکن میں نے یہ کہتے ہوئے اسٹیئرنگ سنبھال لیا کہ میں واپسی کے راستوں سے بہتر آشنا ہوں، کیونکہ کچھ ہی دیر پہلے یہاں سے گزرا ہوں۔
میں نے جیپ واپسی کے کچے راستے پر گھمائی اور حتی الامکان تیزی سے بھگانے لگا۔ میرا ریوالور میری گود میں پڑا ہوا تھا۔ جبکہ ڈاکوؤں سے ہتھیایا ہوا جرمن ساختہ پستول امر دیپ نے سنبھال رکھا تھا۔ میری نظریں باربار پیچھے کا عکس دکھانے والے شیشوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔ جبکہ امردیپ بھی عقابی نظروں سے ہمارے دونوں طرف بھاگتے درختوں پر نظریں دوڑا رہا تھا۔
نہر کا پل پار کر کے میں نے جیپ بائیں طرف نیم پختہ اور ناہموار سڑک پر موڑ دی۔ کچھ ہی دیر بعد ہم گردیال پور گاؤں کے سامنے سے گزرے۔ امر دیپ کو گہری نظروں سے جائزہ لیتے دیکھ کر میں نے بتایا کہ یہی گردیال پور گاؤں ہے، جس کے نام سے یہ جنگل مشہور ہے۔ اس نے کہا۔ ’’میں نے اس جنگل کا نام پہلے بھی اپنے کسی جاننے والے سے سنا ہے۔ میں پنجاب کے بیشتر علاقوں کا سفر کر چکا ہوں، لیکن اتفاق کی بات ہے کہ کبھی اس طرف آنا نہیں ہوا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment