منی لانڈرنگ میں ملوث متحدہ رہنمائوں کے ناقابل ضمانت وارنٹ

عمران خان
متحدہ رہنمائوں کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں اہم پیش رفت ہوگئی۔ 4 اہم متحدہ رہنمائوں کی جانے سے کروڑوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن بھجوانے کے ثبوت سامنے آنے کے بعد ان کی گرفتاریوں کیلئے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کردیئے گئے ہیں۔ متحدہ کے اہم رہنمائوں کی گرفتاریوں کیلئے اسلام آباد اور کراچی کی ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کے افسران پر مشتمل ایک مشترکہ ٹیم بھی قائم کردی گئی ہے، جس کے بعد ان رہنمائوں کو گرفتار کرنے کیلئے کارروائی شروع کئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں ثبوت اور شواہد حاصل ہونے پر جن ایم کیو ایم رہنمائوں کے نا قابل ضمانت وارنٹ جاری کرکے تفتیشی افسران کے حوالے کئے گئے ہیں ان میں ڈپٹی میئر کراچی ارشد ووہرا، سابق وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ بابر غوری، سابق رکن قومی اسمبلی خواجہ سہیل منصور اور سینیٹر احمد علی شامل ہیں۔
وارنٹ کے مندرجات کے مطابق تھانہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے چاروں متحدہ رہنمائوں کی گرفتاریوں کیلئے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو پابند کیا گیا ہے کہ ان چاروں افراد کو گرفتار کرکے 12 نومبر 2018 یعنی تین روز بعد ہونے والی سماعت کے دوران عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔ وارنٹ میں مزید احکامات دیئے گئے ہیں کہ اگر کسی فرد کو وارنٹ وصول نہ ہوسکے اور اس کی گرفتاری ممکن نہ ہو تو اس کی مکمل رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے۔
اس ضمن میں ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے جس کے اگلے مرحلے میں ان رہنمائوں کی بیرون ملک سے گرفتاریوں کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی جائے گی جوکہ اس وقت ملک سے باہر ہیں، جن میں بابر غوری سر فہرست ہیں۔ جبکہ دیگر تین رہنما جن میں ارشد ووہرا ،خواجہ سہیل منصور اور احمد علی شامل ہیں ان کی بھی ملک میں موجودگی کے حوالے سے ایف آئی اے امیگریشن سے ریکارڈ حاصل کیا جا رہا ہے۔ چاروں متحدہ رہنمائوں کے کراچی میں دیئے گئے ایڈریس کچھ اس طرح سے ہیں:
بابر خان غوری ولد سمیع اللہ خان مکان نمبر C-170 محلہ کے ڈی اے اسکیم ون اے کراچی۔
خواجہ سہیل منصور ولد منصور احمد مکان نمبر 87/11اسٹریٹ نمبر 25، خیابان محافظ، ڈیفنس کراچی۔
احمد علی ولد صادق علی مکان نمبر ڈی 25، گلشن اقبال بلاک 17،کراچی۔
ارشد عبداللہ ووہرا ولد عبداللہ مکان نمبر بنگلو نمبر ڈی 225، کے ڈی اے اسکیم اے ون، کراچی۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول کائونٹر ٹیررازم ونگ کی ٹیم کی کوشش ہے کہ ان میں سے جتنے افراد کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اسے ممکن بنا کر عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے، جس کیلئے جمعہ اور ہفتہ کی شب ٹیموں نے کارروائی شروع کردی تھی۔ ذرائع کے بقول دوسرے مرحلے میں دیگر ایم کیو ایم رہنمائوں کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری کروائے جائیں گے جن کے خلاف منی لانڈرنگ کے ثبوت سامنے آچکے ہیں۔
واضح رہے کہ متحدہ لندن منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی جانب سے گزشتہ پیر کو 14 متحدہ رہنمائوں کو نوٹس جاری کرنے کے بعد منگل کے روز مزید 10 رہنمائوں کے نوٹس جاری کئے گئے تھے۔ مجموعی طور پر ایم کیو ایم کے دو ارکان قومی اسمبلی سمیت 24 متحدہ رہنمائوں میں سے 14 رہنمائوں کو 15 نومبر اور 10 رہنمائوں کو 20 نومبر کو اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میں تفتیش کیلئے طلب کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ اسلام آباد کے حکام کے مطابق منگل کے روز جن متحدہ رہنمائوں کو نوٹس جاری کئے گئے ان میں ان میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری، نسرین جلیل، اقبال قادری، سمن سلطانہ جعفری، کشور زہرہ اور ڈاکٹر فروغ نسیم کے ساتھ ساتھ مولانا تنویر الحق تھانوی بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے والے ایم کیو ایم کے سابق رہنماؤں آصف حسنین، نائلہ منیر اور سلمان بلوچ شامل ہیں۔ ان تمام رہنمائوں میں سے سب سے زیادہ رقم آصف حسنین کی جانب سے بھیجی گئی، جو 10 لاکھ روپے سے زائد ہے۔
متحدہ منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں شامل ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جن رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں ان کے خلاف ایف آئی اے نے مکمل ثبوت اور شواہد حاصل کرلئے ہیں۔ جنہوں نے کروڑوں روپے نہ صرف خدمت خلق کے اکائونٹس میں جمع کروائے، بلکہ کروڑوں روپے الطاف حسین کے استعمال کیلئے لندن بھجوائے۔ ان رہنمائوں میں ڈپٹی میئر ارشد ووہرا سرفہرست ہیں، جن کے خلاف تمام ثبوت کیس فائل کا حصہ بنا دیئے گئے ہیں۔ تاہم ان سے بیانات لینے کے بعد ان کو کیس فائل کا حصہ بناکر عدالت میں پیش کیا جائے گا، جن رہنمائوں اور عہدیداروں کو نوٹس ارسال کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس فہرست میں 580 متحدہ رہنمائوں اور عہدیداروں کے نام شامل ہیں۔ ان میں 150 سے زائد ایسے رہنما اور عہدیداروں کے نام ہیں جو پاک سرزمین پارٹی میں کام کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment