چین میں بیوی کی گرفتاری کے بعد بچے بھی رل گئے

نمائندہ امت
پاکستان کے ایسے کاروباری افراد جنہوں نے چین میں مسلم خواتین سے شادیاں کی ہیں۔ ان کو شکایت ہے کہ ان کی بیویوں کو چینی حکام نے کئی برسوں سے نظربند رکھا ہوا ہے۔ انہیں اپنے بیوی بچوں کو پاکستان منتقل کرنے کی اجازت دی جائے۔ ’’امت‘‘ حفاظتی نقطہ نظر سے ایسے متاثرہ افراد کی کہانیاں نام تبدیل کرکے شائع کر رہا ہے۔
زاہد کمال خود تو پاکستان میں ہیں، تاہم ان کی اہلیہ سمیرا گل (فرضی نام) تقریباً دو سال سے چین میں قید ہیں۔ ان کے دو بچوں پر تعلیم کے دروازے بھی بند ہوچکے ہیں۔ زاہد کمال اپنی بیٹی سے فون پر بات کرتے ہیں تو وہ رو رو کر انہیں فوری طور پر چین آنے اور اس کو ماں سے ملانے کا کہتی ہے۔ زاہد کمال کا شکوہ ہے کہ چین کے لوگ جب پاکستان آتے ہیں تو ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن چین میں پاکستانیوں کے ساتھ ناورا سلوک کیا جارہا ہے۔ زاہد کمال کے بقول ان کی بیوی کو صرف پاکستان آنے اور ایک پاکستانی مسلمان سے شادی کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔
نمائندہ ’’امت‘‘ سے ملاقات کے دوران زاہد کمال کے موبائل فون پر ایک کال موصول ہوئی۔ زاہد نے بتایا کہ ’’یہ میری بیٹی کی کال ہے۔ کیا آپ والدین سے سے بچھڑ جانے والی چھ سالہ بچی کی بات سننا پسند کریں گے‘‘۔ نمائندہ ’’امت‘‘ کے اثبات میں جواب دینے پر اس نے اسپیکر آن کردیا۔ زاہد کمال نے فون پر السلام علیکم کہا تو بچی نے بے ساختہ کہا کہ ’’آپ السلام علیکم نہیں کہیں۔ ان ہی باتوں پر میری مما کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی۔ میں بھی السلام علیکم کہوں گی تو وہ مجھے پکڑ کر لے جائیں گے‘‘۔ زاہد کمال نے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ صبح ہی کسی دوسرے رشتہ دار کے گھر چلا گیا تھا۔ کیونکہ وہ دونوں جس رشتہ دار کے گھر پر مقیم ہیں، اس نے بھائی کو کہا تھا کہ وہ تھوڑے دونوں کیلئے کسی دوسرے رشتہ دار کے گھر چلا جائے۔ بیٹی نے کہا کہ… پاپا! مجھے مما اور آپ بہت یاد آتے ہو۔ مما تو پولیس کے پاس ہیں۔ آپ پاکستان میں کیا کررہے ہو۔ آپ چین آجائو یا ہمیں بھی پاکستان لے جاؤ‘‘۔ یہ کہہ کر بچی نے زاروقطار رونا شروع کردیا۔ بیٹی کی ہچکیاں سن کر زاہد کمال بھی ضبط نہ کرسکا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ دس منٹ تک دونوں باپ بیٹی باتیں کرتے رہے۔ اس دوران زاہد اپنی بیٹی کو تسلیاں دیتا رہا، لیکن وہ مسلسل اصرار کر رہی تھی کہ اس کو پاکستان بلالیں۔ جس کے بعد مجبوراً اس کو فون بند کرنا پڑا۔
زاہد کمال نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ … ’’میرا تعلق گلگت بلتستان کے ایک کاروباری خاندان سے ہے۔ میرے والد اور دادا بھی درآمد اور برآمد کے کاروبار سے منسلک تھے۔ والد نے جب کاروبار میرے حوالے کیا تو وہ دو ممالک سے تھا۔ تاہم جب میں نے کاروباری معاملات شروع کئے تو بزنس کو چار ممالک تک پھیلا دیا۔ ہم لوگ چین میں وینتام کے راستے سے گوشت سپلائی کرتے ہیں۔ جبکہ چین سے پاکستان میں ایک مشہور اسٹیشنری اور الیکٹرک برانڈ کی مصنوعات تیار کراتے ہیں۔ اسی طرح دیگر ممالک کے کچھ برانڈ بھی ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کو ہم کچھ مصنوعات چین ہی سے تیار کرواکر دیتے ہیں۔ میرا چین میں آنا جانا 1998ء میں شروع ہوا تھا۔ سمیرا گل ہمارے تیارہ کنندہ کی بیٹی اور مسلمان خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ سمیرا سے میری پہلی ملاقات اس کے گھر پر ہی ہوئی تھی۔ اس کے والد صرف ہمارے لئے ہی مصنوعات تیار کرتے تھے، اس لئے ان کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات تھے۔ پہلی ملاقات کے بعد میں اور سمیرا گل قریب آنا شروع ہوگئے۔ میں نے گھر والوں کو اپنی پسند سے آگاہ کیا تو والد نے سمیرا گل کے والد سے بات کی۔ اس طرح 2004ء میں اسلامی طریقے سے ہمارا نکاح ہوگیا۔ 2005ء میں میرے والد کا انتقال ہوا تو پہلی مرتبہ سمیرا گل پاکستان آئی۔ پھر 2010ء تک وہ چار پانچ مرتبہ پاکستان آئی۔ لیکن پھر بچوں کی تعلیم کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکی تھی۔ پھر ایک طویل وقفے کے بعد 2016ء میں، میں اپنے دونوں بچوں اور سمیرا کو پاکستان لایا تھا۔ وہ ایک یادگار دورہ تھا، میں نے سمیرا اور بچوں کو پورا پاکستان گھمایا تھا۔ دو ماہ بعد جب ہم واپس چین پہنچے تو محسوس ہوا کہ ہمارا مشکل وقت شروع ہوچکا ہے۔ 2017ء کے ابتدائی دنوں میں ، میں چین میں اپنے دفتر میں موجود تھا کہ چین کے سرکاری حکام آئے اور مجھ سے میرا پاسپورٹ طلب کیا۔ وہ بڑے دوستانہ انداز میں بات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے سمیرا گل اور بچوں کے بارے میں پوچھا۔ سمیرا گل کاروبار میں میرا ہاتھ بٹاتی تھی بلکہ عملًا وہ پارٹنر تھی اور کاروبار اسی کے نام پر تھا۔ میں نے اس کو بھی بلا لیا۔ انہوں نے سمیرا سے بھی اس کے پاسپورٹ کا پوچھا، جو گھر سے منگوا کر انہیں دیدیا گیا۔ پاسپورٹ دیکھنے کے بعد انہوں نے مجھ سے معذرت کی اور کہا کہ سمیرا سے تنہائی میں پوچھ گچھ کرنی ہے۔ مجبوراً مجھے دفتر سے باہر جانا پڑا۔ یہ پوچھ گچھ کوئی تین گھنٹے تک جاری رہی۔ اس کے بعد وہ چلے گئے، لیکن سمیرا بہت خوفزدہ تھی۔ انہوں نے سمیرا سے پوچھا تھا کہ پاکستان کے دورے میں تم نے اسکارف لیا تھا۔ انہوں نے سمیرا کا موبائل بھی چیک کیا تھا، جس میں موجود اس کی تصاویر میں اسکارف اور پاکستان کے اسلامی لباس پر شدید اعتراض کیا تھا۔ وہ لوگ سمیرا کا پاسپورٹ بھی ساتھ لے گئے تھے۔ میں چین میں مختلف لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سن چکا تھا، جن میں لوگوں کو جیلوں میں بند کیا جارہا تھا۔ میں پریشان ہوگیا کہ اب میرے ساتھ کیا ہوگا۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک دن صبح وہی سیکورٹی اہلکار دوبارہ میرے دفتر آئے اور انہوں نے میری بیوی کو طلب کیا۔ سمیرا کے آتے ہی انہوں نے اس کو حراست میں لے لیا اور سوائے موبائل فون کے کوئی چیز ساتھ نہیں لینے دی۔ میں نے شور شرابہ کرنے کی کوشش کی تو مجھے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر میں ان سے تعاون کروں تو وہ بھی مستقبل میں تعاون کریں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے سمیرا کو بازو سے پکڑا اور اس کے منہ پر نقاب ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ دو دن بعد سیکورٹی اہلکار ہمارے گھر آئے اور پوچھا کہ یہ گھر کس کا ہے۔ میں نے کہا کہ میرا ہے۔ تو انہوں نے کاغذات طلب کئے۔ مکان کی دستاویزات دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ تو سمیرا کا گھر ہے اور تم اس گھر میں نہیں رہ سکتے۔ مجبوراً میں ایک ہوٹل منتقل ہوگیا۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا۔ کچھ دن بعد میں نے اپنے کاروباری معاملات دیکھنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ تمام اکائونٹ سیز کردیئے گئے ہیں، کیونکہ وہ بھی سمیرا کے نام پر تھے۔ میرا اربوں روپے کا کاروبار تھا، لیکن میں ایک دم آسمان سے زمین پر آگیا۔ کچھ دن بعد چینی حکام نے مجھے دفتر آنے سے بھی روک دیا کہ یہ بھی سمیرا کے نام پر ہے۔ رقم نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنے بچوں کی اسکول فیس جمع نہیں کروا سکا اور ویزہ ختم ہونے پر 2018 میں مجھے واپس پاکستان آنا پڑا۔ یہاں سے دوبارہ چین کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ میرے دونوں بچے سمیرا کے رشتہ داروں کے گھروں میں رل رہے ہیں۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ سمیرا کے والد میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ میری وجہ سے وہ اور ان کی دیگر بیٹیاں بھی مشکل میں گرفتار ہوسکتی ہیں۔ میرے بچے مجھ سے ملنے کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ لیکن میں مجبور ہوں کہ ان کے پاس نہیں جاسکتا، نہ انہیں یہاں بلا سکتا ہوں۔ میرا چینی حکام سے سوال ہے کہ میرا قصور کیا ہے۔ میں اور میری بیوی نے ہمیشہ چین کے قوانین کی پاسداری کی ہے۔ پھر ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں ۔ میں کئی امراض کا شکار ہوچکا ہوں۔ پریشان ہوں کہ میرا اور میرے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment