نجم الحسن عارف
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بینچ نے معروف ادیب، شاعر اور مزاح نگار عطاء الحق قاسمی کی بحیثیت چیئرمین پی ٹی وی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان سے اور ان کی تقرری کرنے اور مراعات کا تعین کرنے والوں سے مجموعی طور پر 19 کروڑ، 78 لاکھ، 67 ہزار 491 روپے واپس لینے کا فیصلہ دیا ہے۔ عطاء الحق قاسمی کو اس مجموعی رقم کا 50 فیصد یعنی 9 کروڑ 89 لاکھ روپے واپس کرنا ہوں گے۔ جبکہ سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مجموعی رقم کا بیس بیس فیصد واپس کرنا ہو گا، کہ ان کے قواعد کے برعکس فیصلوں سے قومی خزانے کو نقصان ہوا۔ جبکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے زیر حراست سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کو مجموعی رقم کا دس فیصد جمع کرانا ہوں گے۔ ’’امت‘‘ نے سابق چیئرمین پی ٹی وی عطاء الحق قاسمی سے اس سلسلے میں تفصیلی بات چیت کی، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کریں گے۔ انہوں نے اس فیصلے کے لیے اختیار کردہ عدالتی اپروچ کو عمومی عدالت کے انداز سے ہٹی ہوئی کہا اور اپنے دور میں پی ٹی وی کو صرف ایک مد میں سالانہ 70 کروڑ روپے کے فائدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین کا عہدہ اختیارات کا حامل نہیں ہوتا۔ بلکہ فیصلہ سازی اور دستخط کرنے کے اختیارات ایم ڈی کے پاس ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی رقم کے استعمال پر عدالت کو شکایت ہے تو اس کی منظوری چیئرمین نہیں بلکہ ایم ڈی پی ٹی وی دیتے تھے۔ عطاء الحق قاسمی کے مطابق محکمہ اطلاعات و نشریات کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہو گئے تھے، جس نے ان کے خلاف انتقامی اقدامات کئے اور کرائے پر لئے گئے دو کمروں کے فلیٹ کے لیے کرایہ بھی اپنی مرضی سے طے کیا تاکہ بعدازاں مجھے برا بنایا جا سکے۔ اسی طرح میرے پروگرا کیلئے مختص فنڈز کی منظوری اس وقت کے ایم ڈی محمد مالک نے دی تھی، میں نے نہیں۔ اور یہ رقم پروموز کی تیاری، اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات اور پروگرام میں شرکت کرنے والے بڑے بڑے دانشوروں، مجیب الرحمان شامی، اداکاروں حتیٰ کہ خورشید شاہ اور سابق صدر جیسی شخصیات کو چیکوں کی صورت میں پیش کی گئی۔ یہ رقم میرے اکائونٹ میں نہیں آئی۔ عطاء الحق قاسمی سے ہونے والی بات چیت سوال جواب کی صورت میں قارئین کی نذر ہے۔
س: آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ج: عدالت کا فیصلہ ہے، میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس فیصلے کو درست مانتا ہوں۔ میں عدالتی فیصلے اور اس کیلئے اختیار کردہ اپروچ سے اختلاف کرتا ہوں۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائوں گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بطور چیئرمین پی ٹی وی میں نے جتنا عرصہ کام کیا اس دورانئے میں میرے خلاف کوئی کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔ نیز یہ کہ 20 کروڑ روپے کی جس رقم کے واپس کرنے کا کہا گیا ہے، اس میں سے نہ تو کوئی رقم پی ٹی وی کے اکائونٹ سے نکلی، نہ ہی میرے اکائونٹ میں جمع ہوئی۔ اس کے باوجود فیصلہ دے دیا گیا۔
س: آپ چیئرمین پی ٹی وی اپنی خواہش پر بنائے گئے؟
ج: جب مجھے چیئرمین پی ٹی وی بنایا گیا تو میں سمجھتا تھا کہ یہ ایک چیلنج ہوگا۔ میں نے صرف پی ٹی وی میں بہتری لانے کیلئے اور ٹی وی کو ایک بہتر ادارہ بنانے کیلئے یہ چیلنج قبول کرلیا۔
س: آپ کا پروگرام بھی ہوتا رہا، جس کا عدالت میں بہت ذکر ہوا؟
ج: جی ہاں، میرا پروگرام تھا ’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘۔ اس میں اداکاروں، گلوکاروں، شاعروں، ادیبوں اور سیاستدانوں کو بلایا جاتا تھا۔ اس میں صدر پاکستان سے لے کر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو بھی بلایا گیا۔ ممتاز صحافی الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمان شامی ایسے بڑے ناموں کو بلایا گیا۔ ایسے کوئی 60 کے قریب لوگ اس پروگرام کا حصہ بنے، لیکن خیال رہنا چاہئے کہ اس پروگرام کی بطور چیئرمین میں نے منظوری دی تھی نہ میں دے سکتا تھا۔ اس پروگرام کی منظوری اس وقت کے پی ٹی وی کے ایم ڈی اور موجودہ ٹی وی اینکر محمد مالک نے دی تھی۔ جس رقم کا عدالت میں بڑا چرچا ہوا، وہ میری جیب میں یا اکائونٹ میں نہیں گئی، بلکہ ان مہمان دانشوروں کو بصورت چیک دی جاتی تھی جو اس پروگرام کا حصہ بنتے تھے۔ لیکن پروگرام کا سارا بجٹ بھی میرے کھاتے میں ہی عدالت نے ڈال دیا ہے۔ پروگرام کا پرومو بنایا گیا تھا۔ اس پرومو کی لاگت بھی بڑی محنت کرکے میرے کھاتے میں ڈال دی گئی۔
س: اخبارات کیلئے اشتہارات کا بھی اس پروگرام کے حوالے سے ذکر ہوا۔ یہ کیا معاملہ تھا؟
ج: اس پروگرام کے پرومو کے حوالے سے اشتہارات کا معاملہ اخبارات کے ساتھ ’’بالٹر‘‘ تھا۔ اخبارات کے ساتھ مختلف اداروں کا بالٹر کا معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن بڑی محنت کے ساتھ اس بالٹر کی بنیاد پر شائع ہونے والے اشتہارات کے نرخ نکال کر ایک بڑی رقم بنا ڈالی اور صرف یہ نہیں بلکہ اس کو میرے کھاتے میں بھی ڈال دیا گیا۔ حتیٰ کہ پروگرام کی ٹرانسمیشن کے اخراجات بھی میرے کھاتے میں ڈال دیئے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مجھ پر ملبہ ڈالنے کیلئے اتنی محنت کی گئی۔ پہلے 28 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا، یہ آڈٹ والوں کو پی ٹی وی کے معاملات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ آڈٹ والوں کو چاہئے تھا کہ پی ٹی وی والوں سے ان کی رائے بھی معلوم کرتے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا بالآخر یہ رقم 28 کروڑ سے 20 کروڑ ہوگئی۔
س: آپ کی رہائش کیلئے حاصل کئے گئے گیسٹ ہائوس کے بارے میں بھی بڑی بات ہوئی ہے؟
ج: جی ہاں! جب میں نے بطور چیئرمین پی ٹی وی جوائن کیا تو بلاشبہ مجھے اسلام آباد میں رہائش رکھنا تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ شالیمار کمپنی کے احاطے میں دو کمرے کا فلیٹ خالی ہے، جس کے نیچے بینک ہے۔ میں نے اس میں رہائش اختیار کر لی۔ اسی دوران میری محکمہ اطلاعات کے ساتھ ٹھن گئی۔ اس رہائش کی منظوری بھی اور باقی تمام مالی امور کا فیصلہ کرنے کا اختیار میرے پاس نہیں، ایم ڈی کے پاس تھا۔ جب پہلے والے ایم ڈی کی مدت ملازمت ختم ہو گئی تو پھر میرے اصرار کے باوجود نیا ایم ڈی نہیں لگایا گیا، بلکہ کبھی کسی کو عارضی یا اضافی چارج دے دیا جاتا رہا اور کبھی دوسرے کو۔ محکمہ اطلاعات کے اس رویے کے خلاف میں نے وزیر اعظم کو خط لکھا کہ پی ٹی وی بغیر ایم ڈی کے چل رہا ہے۔ خدارا ایم ڈی کا تقرر کیا جائے۔ وزیراعظم نے حکم دیا کہ ایم ڈی لگایا جائے تو اس کے بعد اخبارات میں اشتہار دیا کہ ایم ڈی کی پوسٹ کیلئے درخواستیں مطلوب ہیں۔
س: پھر کیا ہوا؟
ج: یہ بھی دلچسپ بات ہے۔ جب اشتہار کی بنیاد پر مختلف لوگوں نے اس عہدے کیلئے خود کو پیش کیا تو محکمہ اطلاعات نے یہ موقف اختیار کرلیا کہ ان درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی اس منصب کیلئے ضروری اہلیت نہیں رکھتا ہے۔ یوں ایک مرتبہ پھر محکمہ اطلاعات کا پی ٹی وی پر کنٹرول پکا کر لیا گیا۔ اس کے بعد میں نے محسوس کر لیا کہ پی ٹی وی کو محکمہ اطلاعات کے کنٹرول سے نکالنا آسان نہیں۔ میں نے اپنی ذمہ داری کی مدت ختم ہونے سے ایک سال پہلے ہی استعفیٰ دے دیا۔ اگر دیکھا جائے تو 14 لاکھ ماہانہ کے حساب سے پورے سال کی تنخواہ میں نے اصولی موقف کی بنیاد پر قربان کر دی۔ لیکن اس کے باوجود اب مجھ سے رقوم کی واپسی کا حکم آیا ہے۔
س: قاسمی صاحب! آپ کی رہائش گاہ کا معاملہ رہ گیا؟
ج: وہ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔ اس کا کرایہ یومیہ پانچ ہزار روپے لگا دیا گیا۔ یہ فیصلہ میرا نہیں، ایم ڈی کا تھا۔ اسی طرح جو خانساماں پہلے سے شالیمار کمپنی میں کام کرتا تھا شام کے وقت ہم اس سے کام لیتے تھے، اس کی مد میں بھی 20 ہزار روپے ماہانہ ڈال دیئے گئے۔ میں نے اس صورت حال میں شالیمار کمپنی کو تین خط لکھے کہ مجھے فلیٹ دینے سے پہلے جن لوگوں کو کرائے پر دیا گیا تھا، ان سے کمپنی کس حساب سے اور کتنا کرایہ لیتی تھی، مجھے بتایا جائے۔ لیکن مجھے کچھ نہیں بتایا گیا۔
س: آپ کے ساتھ ایم ڈی محمد مالک ہی تھے؟
ج: جی ہاں، ان کے بعد تو کسی کو مستقل ایم ڈی لگایا ہی نہیں گیا۔
س: کیا آپ کے خیال میں عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے جو اپروچ اختیار کی ہے، یہ عمومی روایت سے ہٹ کر ہے؟
ج: جی میری یہی رائے ہے۔
س: آپ کے دور میں پی ٹی وی کیلئے کچھ اچھا بھی تو ہوا ہوگا؟
ج: محمد مالک نے ایک مرتبہ مجھے کہا کہ عوام سے بجلی کے بلوں کے ساتھ ٹی وی کے کھاتے میں جو رقم لی جاتی ہے ان 35 روپوں میں سے پانچ روپے واپڈا کو چلے جاتے ہیں۔ اگر آپ واپڈا کو دی جانے والی رقم کو محض ایک ’’ٹوکن منی‘‘ کے طور پر پانچ روپے کے مقابلے میں صرف ایک روپیہ واپڈا کو دیئے جانے کی وزیراعظم سے منظوری لے دیں۔ میں نے وزیراعظم سے درخواست کی تو انہوں نے میری درخواست قبول کر لی۔ اب اس فیصلے سے پی ٹی وی کو دو سال سے 70 کروڑ روپے سالانہ بنیاد پر مل رہے ہیں۔ جب تک پی ٹی وی رہے گا، یہ خطیر رقم پی ٹی وی کو ملتی رہے گی۔
س: کیا عدالت عظمیٰ نے سابق ایم ڈی محمد مالک کو بھی اس کیس میں بلایا تھا۔
ج: نہیں۔
٭٭٭٭٭