حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

قسط نمبر56
سید ارتضی علی کرمانی
حضرت کی ایک اور کرامت پیش خدمت ہے۔ ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت صاحبؒ کے مقبول قوال حافظ نور محمد کی زندگی آپ کی دعائے خاص سے بچ گئی۔ جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے ’’دعا فقیراں تے رحم خدا‘‘ حضرت صاحبؒ کے وصال کے دو سال کے بعد حافظ صاحب اپنے گاؤں لاوا ضلع میانوالی میں ڈبل نمونیہ کا شکار ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے ان کی زندگی بچانے کے سلسلے میں مایوسی کا اظہار کر دیا۔ اسی حالت میں ان کا بیٹا خادم حسین ان کا سر اپنی گود میں لئے بیٹھا تھا۔ پچھلی رات حافظ صاحب پر سخت بے چینی اور کرب کی حالت طاری ہوئی۔ اسی حالت میں انہوں نے ایک شعر فارسی کا پڑھا۔
آتش شوق بتاں در دل جانم باقی است
اے اجل باش کہ بایا دیبانم باقی است
ترجمہ: مجازی محبت کی آگ ابھی میرے دل و جان میں موجود ہے، اے اجل رک جا، کہ مجھے اپنے دوست سے کچھ کہنا ہے۔
بیٹے نے حیران ہوکر پوچھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، کہا کہ ابھی حضرت صاحبؒ تشریف لائے تھے فرمایا: ’’حافظ آنا چاہتے ہو یا ابھی رہنے کا ارادہ ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’خادم اور عبد الرحمن کا بیاہ کرچکا ہوں، مگر فرید کے بیاہنے کی حسرت باقی ہے۔‘‘ فرمایا یہ شعر پڑھو اور جب میں نے پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی۔ حافظ صاحب اس کے بعد بالکل تندرست و توانا ہوگئے اور اپنے تیسرے بیٹے فرید کی شادی بھی کی اور اس کے دو بچوں کو بھی گود میں کھلایا۔
ایک اور واقعہ بڑا معروف ہے کہ ایک مرتبہ ملک محمد صادق خان صاحب بیان فرماتے ہیں کہ
’’میں گردہ کے درد کے عارضے میں مبتلا ہوگیا تھا۔ جو بعض اوقات اتنی شدت اختیار کرلیتا کہ جان کے لالے پڑجاتے۔ 1964ء میں ایک روز ملک خدا بخش صاحب کا وہ مقالہ پڑھ رہا تھا، جس میں ان کی اہلیہ کی معجزہ نما شفایابی کا ذکر ہے۔ میں نے کہا الٰہی! میں بھی آپ کے اسی ولی کا دامن گرفتہ ہوں، مجھے بھی ان کے صدقے اس درد ناک مرض سے شفا عطا فرمایئے اور یہ کہہ کر مجھ پر رقت طاری ہوگئی۔ چند منٹ بعد مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی، جس میں ایک بڑی سی پتھری خود بخود کسی تکلیف کے باہر نکل گئی اور یوں حق تعالیٰ کے فضل سے مکمل طور پر شفایاب ہوگیا۔
حضرت صاحبؒ کا وصال:
حضرت صاحبؒ نے ابتدائے تعمیر حال میں اپنے نفس زکیہ کو ریاضات شاقہ اور مجاہدات شدیدہ میں ڈال کر خود کو ترک غذاکا عادی بنالیا تھا۔ جس کی وجہ سے معدہ غذا سے غیر مانوس ہوکر لطیف اور نازک ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے عمر کے آخری حصے میں بتقاضائے بشری اور طبی نقطہ نگاہ سے جب جسمانی قوت کے تحفظ کیلئے ادویات کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کے قلیل استعمال سے ہی مستقل طور پر دورہ ہچکی لاحق ہوا۔ اس کے بعد ایک ایسا مرض لاحق ہوا جس کی تشخیص سے حکمت یونانی اور ڈاکٹر عاجزرہ گئے۔ اس نامعلوم کیفیت مرض کی وجہ سے جسم روز بروز کمزور ہوتا چلا گیا۔ یوں تو تقریباً دس سال تک آپ مختلف تکالیف میں مبتلا رہے، مگر چار پانچ برس تو حضرت مسلسل صاحب فراش رہے۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قدرت کاملہ حضرت صاحبؒ کے محبین اور معتقدین کو آنے والی بلائے ہجرو فراق کا خوگر بنا رہی ہے۔ ہچکی کے شدید دورے اور دیگر تکالیف کی شدت کے باوجود آستانہ عالیہ پر حاضر ہونے والے تمام زائرین کو حسب سابق، سابقہ اوقات مقررہ پر باریابی کا شرف بخش کر فرداً فرداً جوابات اور دعاؤں سے فیض یاب فرماتے۔ یاد رہے اور کسی کو توجہ سے کبھی محروم نہ رکھا۔ دریائے فیضان شدید سے شدید تکلیف میں بھی جاری رہا۔
خلق خدا کی دلجوئی ہر حال میں حضرت صاحبؒ کے مد نظر رہی۔ تقریباً دو ڈھائی برس استغراق اور محویت کی حالت طاری رہی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ جناب مولانا محبوب عالم صاحب زائرین کے معروضات کو متعدد مرتبہ پیش کرتے، تب آپ کسی وظیفہ کے ارشاد یا دعا سے مستفید فرماتے۔ عالم استغراق میں کبھی کبھی گفتگو بھی فرماتے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد پھر دوبارہ وہی کیفیت طاری ہو جاتی۔
ایک مرتبہ صحو کی کیفیت میں حضرت صاحبؒ نے مولانا قاری غلام محمد صاحب کو یاد فرمایا کہ سورۃ یوسف کی تلاوت کے لئے ارشاد فرمایا۔ تلاوت کے دوران چار مقامات پر حضرت صاحب اشکبار ہوئے۔
ان ایام میں آپ اکثر وہی اشعار پڑھا کرتے اور حضرت ثانی سیالوی کا ذکر خیر فرماتے۔ یہ اشعار بھی حضرت صاحبؒ ثانی سیالوی کی جدائی میں کہے تھے۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment