معارف و مسائل
مذکورہ قول کی تائید میں ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ کا قول بروایت ابن ابی حاتمؒ یہ پیش کیا ہے کہ حضرت حسنؒ نے یہ آیت السابقون السابقون تلاوت کر کے فرمایا کہ سابقین تو ہم سے پہلے گزر چکے، لیکن خدایا ہمیں اصحاب الیمین میں داخل فرما دیجئے اور حضرت حسنؒ سے دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ ثلۃ من الاولین کی تفسیر میں فرمایا ثلۃ ممن مضے من ہذہ الامۃ یعنی اولین سے مراد اسی امت کے سابقین ہیں۔
اسی طرح محمد بن سیرینؒ نے فرمایا کہ ثُلَّۃٌ مِّنَ الاَوَّلِینَ کے متعلق علماء یہ کہتے اور توقع کرتے تھے کہ یہ اولین و آخرین سب اسی امت میں سے ہوں۔ (ابن کثیر)
اور روح المعانی میں اس دوسری تفسیر کی تائید میں ایک حدیث مرفوع بسند حسن حضرت ابوبکرہؓ کی روایت سے یہ نقل کی ہے: ’’مسدد نے اپنی مسند میں اور ابن المنذر، طبرانی اور ابن مردویہ نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوبکرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرمؐ نے آیت ثُلَّۃٌ مِّنَ الاَوَّلِینَ … کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ دونوں جماعتیں اسی امت محمدیہ میں سے ہوں گی۔‘‘
اور حضرت ابن عباسؓ سے بھی سند ضعیف کے ساتھ حدیث مرفوع بہت سے حضرات محدثین نے نقل کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: یہ دونوں اولین و آخرین میری ہی امت میں سے ہوں گے۔
اس تفسیر کے مطابق شروع آیت میں کُنتُم اَزوَاجًا… کا مخاطب امت محمدیہ ہی ہوگی اور یہ تینوں قسمیں امت محمدیہ ہی کی ہوں گی۔ (روح المعانی)
تفسیر مظہری میں پہلی تفسیر کو اس لئے بہت بعید قرار دیا ہے کہ آیات قرآن کی واضح دلالت اس پر ہے کہ امت محمدیہ تمام امم سابقہ سے افضل ہے اور ظاہر یہ ہے کہ کسی امت کی فضیلت اس کے اندر اعلیٰ طبقہ کی زیادہ تعداد ہی سے ہوتی ہے، اس لئے یہ بات بعید ہے کہ افضل الامم کے اندر سابقین مقربین کی تعداد کم ہو، آیات قرآن سے امت محمدیہ کی افضلیت سب امتوں پر ثابت ہے۔ اور ترمذی، ابن ماجہ و دارمی نے حضرت بہز بن حکیمؓ سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’تم ستر سابقہ امتوں کا تتمہ ہوگے، جن میں تم سب سے آخر میں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ اکرم و افضل ہو گے۔‘‘(جاری ہے)