سرفروش

قسط نمبر 170
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
امر دیپ نے میری بات توجہ سے سن کر کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔ ’’یار اس کا تو ایک ہی مطلب ہے۔ وہ شخص مجھ سے قریبی واقفیت رکھتا ہے۔ اتنی قریبی کہ اسے یقین ہے کہ میں اس کے ڈیل ڈول، چال ڈھال، باتیں کرنے سے اسے پہچان لوں گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہوں۔ آپ کے ساتھ ہونے والی اس واردات میں یہ بات تو پہلے ہی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ڈاکو آپ کے پٹیالے جانے کے مقصد، حتیٰ کہ وہاں وصول ہونے والی رقم کی متوقع مالیت سے بھی بخوبی واقف تھے۔ یہی نہیں، انہیں آپ کے گھر اور گھر والوں کے معاملات سے بھی خاصی واقفیت تھی۔ اب یہ آپ کو سوچنا ہے کہ ایسی اندر کی معلومات ڈاکوؤں کے اس گروہ تک کون پہنچا سکتا ہے۔ بلکہ مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے وہ شخص اس گروہ کا مستقل حصہ ہے‘‘۔
میری بات سن کر امر دیپ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ سوچ کر میں نے اس سے آج شام ہی اپنے ذہن میں جنم لینے والے ایک سنگین خطرے سے آگاہ کرنا مناسب سمجھا۔ ’’امر دیپ بھائی۔ آپ اور مانو کو ڈاکوؤں سے چھڑانے کی کوشش میں پوشیدہ ممکنہ خطروں کا مجھے بخوبی احساس تھا۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ واہگرو کی کرپا سے دس بیس ہزار روپیوں کی بلی چڑھانے سے آپ کے خاندان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ لیکن پھر ایک خیال نے مجھے پریشان کر دیا‘‘۔
امر دیپ نے تعجب بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’کیسا خیال بہادر بھائی؟‘‘۔
میں نے بتایا۔ ’’میں نے سوچا کہ یہ ڈاکو آپ سے اپنی شکل اور شناخت چھپانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے، صحیح یا غلط، انہیں یہ خدشہ محسوس ہو کہ آپ نے انہیں پہچان لیا ہے۔ ایسے میں کہیں تاوان موصول ہونے کے باوجود وہ اپنے لیے ایک مستقل خطرہ سمجھ کر آپ کو جان سے نہ مار ڈالیں۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ رقم وصول کرنے کے بعد مجھے بھی قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اگر آپ واقعی ان کے ساتھی کو قریب سے جانتے ہیں تو میرا یہ اندیشہ بے بنیاد نہیں تھا‘‘۔
میری بات نے یقیناً امر دیپ پر گہرا اثر کیا تھا۔ وہ مجھے پوری طرح قائل دکھائی دیا۔ وہ بولا تو اس کی آواز میں مجھے ایک عجیب سی گھن گرج سنائی دی۔ ’’تم نے بالکل درست اندازہ لگایا ہے چھوٹے بھائی۔ کوئی گھر کا بھیدی، ہماری آستین کا سانپ ان ڈاکوؤں کے ساتھ شامل ہے۔ اگرتم جان کی بازی لگاکر ہمیں آزاد نہ کرواتے تو بھاری مال ادا کرنے کے باوجود میرے گھر والوں کو ہماری لاشیں ہی ہاتھ آنے والی تھیں۔ تمہاری یہ مہربانی میرا خاندان کبھی نہیں بھولے گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’بھائی، مجھے شرمندہ کرنے کے بجائے اس تیسرے بدمعاش کو تلاش کرنے اور گردن سے دبوچنے کی فکر کرو۔ ورنہ وہ دوبارہ وار کرنے کا مو قع ضائع نہیں کرے گا اور ہو سکتا ہے اس بار وہ اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب ہو جائے‘‘۔
امر دیپ نے میری بھرپور تائید کی۔
بادشاہ پور سے مزید دو گھنٹے کا سفر طے کر کے ہم رات کے دوسرے پہر کے آخر میں امر دیپ کی خاندانی حویلی پہنچے۔ وہاں سارے خاندان کو پریشانی اور تشویش کے عالم میں منتظر پایا۔ ہم کتنی بھی دیر سے پٹیالے سے روانہ ہوتے، زیادہ سے زیادہ رات نو دس بجے تک ہمیں گھر پہنچ جانا چاہیے تھا۔ عمدہ انجن والی کسی جیپ کے لیے چالیس میل فاصلہ کیا حیثیت رکھتا ہے۔ سردیوں کی وجہ سے باقی گھر والوں نے تو وقت پر کھانا کھالیا تھا۔ لیکن بشن دیپ کی بیوی اپنے لاڈلے کی واپسی کے انتظار میں بھوکی بیٹھی تھی۔ جب گیارہ بجے تک بھی ہم گھر واپس نہ پہنچے تو اس نے واویلا شروع کر دیا تھا اور بارہ بجے تو باقی گھر والوں کی تشویش بھی شدت اختیار کرگئی ۔ امر دیپ کے پاس بھاری رقم کی موجودگی اپنی جگہ، لیکن وہ سب جیپ کو پیش آنے والے کسی ممکنہ حادثے کی طرف سے زیادہ فکرمند تھے۔ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ مزید ڈیڑھ دو گھنٹے اہلخانہ پرکیسی قیامت بن کر گزرے ہوں گے۔
جیپ جیسے ہی حویلی کے پھاٹک سے اندرداخل ہوئی، پریشانی کے عالم میں احاطے میں ٹہلتا بشن دیپ خوشی سے چیخ پڑا۔ ’’امر دیپ بھائیا… واہگرو کا دھنواد… آپ لوگ آگئے… ہم سب کی جان سولی پر اٹکی ہوئی تھی‘‘۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے گھر میں چلا گیا اور اس سے پہلے کہ ہم مانو کو اٹھاکر گھر میں داخل ہوتے، پورا خاندان باہر آچکا تھا۔ اس دوران میں حویلی کے کئی نوکر بھی وہاں آگئے تھے۔
براہم دیپ سنگھ اور ان کی گھر والی امر دیپ سے لپٹ گئے اور بشن دیپ کی بیوی نے اپنے بچے کو مجھ سے لپک کر گلے سے لپٹالیا۔ کچھ دیر بعد مانو دادا دادی اور بھائی بہنوں کی محبتوں کا مرکز بنا ہوا تھا اور بشن دیپ اور امر دیپ دوسری طرف سکھوں والی زوردار جپھی ڈالے کھڑے تھے۔ بالآخر میری باری بھی آگئی اور بشن دیپ نے مجھے گلے لگاتے ہوئے وہی سوال دہرایا، جو جانے کتنی بار مختلف انداز میں ہم سے اب تک پوچھا جاچکا تھا۔ یعنی ہم کہاں رہ گئے تھے؟ سب خیریت تو رہی ناں؟ راستے میں جیپ میں کوئی گڑبڑ ہوگئی تھی کیا۔ جبکہ اس دوران ان سب کو ایک ہی جواب ملتا رہا کہ اندر چل کر سب بتادیں گے۔ جانے امر دیپ نے منع کیا تھا یا اس نے خود ہی زبان پر قابو رکھا، مانو نے بھی ڈاکوؤں اور اغوا کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
گھر پہنچنے کے بعد امر دیپ نے احتیاطاً سب نوکروں کو سب ٹھیک ہے کا پیغام دے کر ان کے ٹھکانوں پر بھیج دیا اور پھر گھر والوں کو پورے واقعے سے آگاہ کیا۔ سب کا ردِ عمل ویسا ہی تھا، جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ امر دیپ اور بشن دیپ نے بچوں کو سختی سے انتباہ کیا کہ یہ سارا واقعہ کسی باہر والے، حتیٰ کہ نوکروں کے علم میں بھی نہیں آنا چاہیے۔ پھر بچوں کو سونے کے لیے بھیج کر بڑوں کی محفل جمی، جس میں بے پناہ داد و تحسین اور تشکر سے لادے جانے کے بعد میں نے سب کے سامنے سوال اٹھایا۔ گھر کے اندرونی معاملات سے انتہائی گہرائی تک واقف وہ شخص کون ہو سکتا ہے؟
میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ گہری نظروں سے اپنے اردگرد موجود افراد پر نظریں دوڑائیں اور اس سوال کا جواب تلاش کریں، کیونکہ اسی میں پورے خاندان کی سلامتی پوشیدہ ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment