نذر الاسلام چودھری
امریکی تاریخ کی بد ترین آگ نے ایک لاکھ پانچ ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے جنت نظیر خطہ اور جنگلات کو برباد کردیا۔ جبکہ سینکڑوں امریکی بھی جھلس گئے ہیں۔ اب تک 30 امریکیوں کی لاشیں بر آمد ہوئی ہیں، جبکہ 150 سے زائد شہری لا پتا ہیں۔ ’’وولسی‘‘ کا لقب پانے والی اس آگ نے تین لاکھ سے زیادہ امریکیوں کو دربدر کردیا ہے۔ سینکڑوں اقسام کے درخت اور جانور بھی اس خوفناک آگ کی زد میں آکر بھسم ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں کاریں بھی خاکستر ہوگئی ہیں۔ امریکا کے جدید ترین فائر بریگیڈز اور ہوائی فائر ٹینڈرز سمیت تربیت یافتہ عملہ شدید ترین آگ، گرمی اور دھویں کے سامنے بے بس ہیں۔ امریکی میٹرولوجیکل آفس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں کو محض گھیر سکتے ہیں، لیکن آگ کے پھیلائو اور اس سے پھیلی تباہی میں ایک ہفتے تک کوئی کمی نہیں آسکے گی۔ اس کے بعد ہی امدادی سرگرمیوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ کیلی فورنیا کے آگ اور جنگلات سے بچائو کے ادارے کے ڈائریکٹر اسکاٹ میکلن نے بتایا ہے کہ بد ترین آگ سے پورے علاقے تباہ ہوچکے ہیں اورکوئی چیز سلامت نہیں رہی ہے۔ امریکی میڈیا کمنٹیٹر جوزف بائیڈن کا کہنا ہے کہ پورا علاقہ ہولناک مناظر کا منظر پیش کررہا ہے۔ جلے گھر، کیمیائی مرکب کی تلخی اور آگ سے جھلس جانے والے افراد کے گوشت اور اعضا کی بد بو دماغ سڑا رہی ہے، سب کچھ ناقابل برداشت ہے، مکین ماتم کناں ہیں۔ یہاں بہت سے اداکاروں اور ہائی پروفائل لوگوں کی رہائش تھی جو سبھی اپنی اپنی جانیں بچا کر محفوظ علاقوں کی جانب بھاگ چکے ہیں۔ بچ جانے والے اداکاروں میں شین مارٹن، کم کارڈیشان، گلوکارہ چیر، گلوکارہ لیڈی گاگا، آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار گیولر موڈیل شامل ہیں۔ شمالی کیلی فورنیا کے اس علاقہ کو سنگین آگ کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے الیکٹرونک اور سماجی میڈیا کی مدد سے ریڈ فلیگ وارننگ ایریاز کا نام دیا گیا ہے، جہاں آگ اپنا سنگین رنگ دکھائے گی۔ تازہ اطلاعات کی رو سے کیلی فورنیا میں 21 مقامات آگ کی لپیٹ میں ہیں اور ان میں 4 مقامات پر آگ کی شدت اور حدت انتہائی سنگین ہے۔ نارتھ کیلی فورنیا کی بوٹے کائونٹی کے شیرف کورے ہونی کا کہنا ہے کہ آگ نے چار سو پچیس کلومیٹر 425 مربع رقبہ کو لپیٹ میں لے کر ویران کردیا ہے۔ مقامی میڈیا اور امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ ہلاکتیں 100 سے زیادہ ہوسکتی ہیں کیونکہ اب تک گمشدہ مکینوں کی کوئی اطلاعات یا خیر خیریت نہیں ملی ہے کہ وہ آگ سے محفوظ ہیں یا نہیں۔ امریکا کی ایمرجنسی سروس نائن ون ون نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے پاس مصدقہ کال ریکارڈ کے مطابق 500 سے زائد شہریوں کی مدد کی درخواستیں آئیں، جو انتہائی تیزی سے پھیلتی شدید ترین آگ سے بچائو کیلئے پولیس اور فائر بریگیڈ کی مدد کیلئے تھیں، لیکن آگ کے سنگین اور تیز ترین پھیلائو کے نتیجہ میں ان کی مدد نہ کی جاسکی کیونکہ پیراڈائز نامی قصبہ اور ملحقہ علاقوں میں آگ نے مقامی امریکیوں کو گھروں سے نکلنے اور گھروں سے باہر موجود افراد کو جان بچانے کا کوئی موقع نہیں دیا جبکہ مقامی امدادی سروس نے تصدیق کی ہے کہ 100سے زائد کار سواروں اور مقامی مکینوں نے ان کو بیانات ریکارڈ کروائے ہیں کہ آگ کی شدت اس قدر تھی کہ انہیں کار میں بیٹھ کر سامان اور قیمتی اشیا کو بچانے کا موقع بھی نہیں ملا اور ان کی کاریں ایسی ہی کھڑی رہ گئیں جبکہ ان کو جان بچانے کیلئے پیدل بھاگنا پڑا۔ شمال مشرقی سان فرانسسکو سے محض290 کلومیٹر کی دوری پر واقع حسین ترین اور جنت نظیر امریکی قصبہ پیراڈائز کو آگ نے مکمل ویران کرڈالا ہے۔ اسی ایک قصبہ میں ہلاکتوں کی تعداد23 ریکارڈ کروائی گئی ہے۔ یہاں جنگلات اور آگ سے متاثر قصبہ میں جا بجا لاشیں اور ان کے سوختہ اعضا ملے ہیں جن کی فوری شناخت کیلئے امریکی حکام نے متحرک ٹیمیں اور مشینریاں منتقل کردی ہیں، جو ہاتھ کے ہاتھ ان افراد کے ڈی این اے کی جانچ کرکے ان کی شناخت کر رہی ہیں، جبکہ کائونٹیز کے امریکی پولیس حکام کو ہدایات دی گئی ہیں کہ 911 کے کال ریکارڈ کی روشنی میں گم ہوجانے والے 150 سے زائد شہریوں کی تلاش کیلئے ایک ایک شیلٹرز (حکومتی امدادی پناہ گھر) میں جائیں اور ان کی تلاش کریں، تاکہ ان کو مردہ یا زندہ ڈکلیئر کیا جاسکے۔ کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین اور ڈیپارٹمنٹ آف انتھروپولوجی نے سان فرانسسکو کرونیکل جریدے کو بتایا ہے کہ ہم لاشوں کی جگہ سوختہ ہڈیوں کے ڈھانچوں کو دیکھ رہے تھے، یہ ناقابل یقین منظر تھا، مقامی میڈیا سے گفتگو میں امریکی عوام نے کھل کر تسلیم کیا کہ یہ آگ جہنم کی آگ کی طرح انسانوں کو نگلتی گئی۔ شمالی سیکرامین علاقہ میں ایستادہ 6,700 سے زائد مکانات تباہ حال ہیں جبکہ اس علاقہ سے 52 ہزار سے زائد مکینوں کو آگ نے بے گھر کردیا ہے، جن کو امریکی حکومتی شیلٹرز میں رکھا گیا ہے اور قیام و طعام کی سہولیات دی جارہی ہیں۔ ونچورا کائونٹی شیرف مسٹر بل ایوب نے بتایا ہے کہ آگ کے پھیلائو میں خشک موسم اور تیز ہوائوں نے خاص کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں گھر تباہ اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ اپنے شوہر کے ساتھ موبائل ہوم (گاڑی) کی مدد سے فرار ہونے والی شیلا نامی ایک خاتون نے بتایا ہے کہ آگ ایسے پھیلی جیسے جہنم کی آگ ہو، ہمیں کوئی راستہ بچائو کا دکھائی نہیں دیا ہم نے پورا گھر ایسے ہی چھوڑ دیا اور موبائل ہوم میں بیٹھ کر نکل بھاگے۔ ٭