حضرت مرطوش کی قبر درخت کاٹ کر دریافت کی گئی

دوسری قسط
احمد خلیل جازم
حضرت مرطوشؑ کا مزار قصبہ موٹا میں حضرت قنبیطؑ کے مزار واقع شیخ چوگانی سے کم و بیش تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ موٹا میں مزار تک جانے کیلئے قصبے سے بیرونی سمت کچے راستے سے جانا پڑتا ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے احساس ہوا کہ واقعی ایک وقت ایسا ہوگا کہ یہاں جنگل بیابان کا عالم جوبن پر ہوگا، کیونکہ یہ راستہ اب بھی گھنے درختوںکے درمیان سے ہو کر نکلتا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق حافظ شمس الدین کا معمول تھا کہ وہ عبادت کیلئے شیخ چوگانی میں حضرت قنبیطؑ کے مزار پر جایا کرتے تھے۔
شیخ ضیا کا دعویٰ تھا کہ ’’حافظ شمس الدین ایک رات شیخ چوگانی میں مزار پر حاضر ہوئے تو انہیں وہاں سے حکم ملا کہ آپ قصبہ موٹا تشریف لے جائیں، وہاں بھی اللہ کے نبی موجود ہیں۔ چونکہ حافظ شمس الدین کو کشف القبور کے علم پر عبور حاصل تھا، وہ صاحب مزار کے حالات جان لیتے تھے اور ریاضت کی ان منازل پر تھے کہ آپ کو صاحبان مزار باقاعدہ دیگر مزارات کے بارے بھی آگاہی دیتے تھے، اسی لئے انہوں نے کم و بیش پانچ سو کے قریب مزارات کی نشان دہی اپنی کتاب میں کردی۔ چنانچہ حکم کے مطابق آپ قصبہ موٹا کے قریب پہنچے تو وہاں سے معلومات حاصل کی گئیں کہ کہیں کسی قدیم قبر کا نام و نشان ملے لیکن جو قدیم قبریں ملیں وہ آپ کے مطلب کی نہ تھیں۔ جس جگہ اب یہ مزار اور قبر واقع ہے اسی سے قریب گھنے جنگل میں حافظ شمس الدین نے قیام کیا اور عبادت و ریاضت کا عمل شروع کردیا۔ کئی روز کے قیام کے بعد، دوران عمل ہی آپ کواشارہ ہوا، اور صاحب مزار نے اپنی قبر کی نشان دہی فرما دی کہ وہ کہاں پر مدفون ہیں۔ جس جگہ قبر کی موجودگی کا اشارہ ملا وہاں درخت موجود تھا، چنانچہ حافظ صاحب نے وہ درخت کٹوا کر قبر کے بارے بتا دیا کہ یہاں کون ہستی دفن ہیں‘‘۔
حافظ شمس الدین کے بارے میں مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ ان پر اللہ کا خاص کرم تھا، کیونکہ ایسی ویران جگہ پر قیام کرنا آسان نہیںتھا۔ ’’آئینہ گجرات‘‘ نامی کتاب میں مصنف ایم زمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’منشی علائو الدین کا کہنا تھا کہ ان مزارات پر کوئی صاحب نظر یا صاحب علم شخص ہی رات کو قیام کرسکتا۔ حافظ صاحب دسمبر اور جنوری کی سرد ترین راتوں میں کھلے آسمان تلے بغیر کسی گرم بستر کے قیام کرتے ، یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہتا‘‘۔ اسی حوالے سے شیخ ضیا کا دعویٰ تھا کہ ’’جب سائیں نورالدین کو حکم ہوا کہ وہ موٹا میں صاحب مزار کے پاس جاکر قیام کریں تو دوران قیام ہی انہیں مزار سے اشارہ ملا کہ قبر پر روضے کی تعمیر شروع کی جائے۔ چنانچہ سائیں نور الدین نے قبر کے اوپر مزارکی تعمیر کا کام شروع کردیا، تو ارد گرد کے لوگوں نے سائیں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا کہ اگر حضرت مرطوشؑ کی قبر کو چھیڑو گے تو تباہ و برباد ہوجائو گے۔ چنانچہ اس خوف سے سائیں نورالدین نے تعمیر کا کام روک دیا۔ اسی دوران ایک رات سائیں نور الدین کو خواب میں پھر تعمیر کا حکم ملا، پھر اشارہ ملا کہ چند فٹ زمین کے نیچے سرخ رنگت کی قبر موجود ہے ۔‘‘ تو کیا حافظ شمس الدین نے قبر دریافت نہیں کی تھی؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’انہوں نے جگہ کی نشان دہی کردی تھی لیکن قبر بعد میں کھدائی کے دوران نکالی گئی۔ سائیں نورالدین نے کھدائی شروع کی اور پھر قبر سامنے آگئی، اب صورت حال یہ تھی کہ نور الدین نے مزار کا کام تو شروع کرا دیا لیکن اس کیلئے خاصی رقم درکا ر تھی، چنانچہ انہوں نے وہ ذاتی زمین بیچ دی جو انہیں الاٹ ہوئی تھی۔ اس زمین کی فروخت سے نہ صرف روضہ تعمیر کرایا بلکہ مسجد، کنواں اور رہائشی کمرے بھی تعمیر کرا دئیے۔ پھر صاحب مزار کا عرس مبارک ان کی اجازت سے ہر برس شروع کرادیا۔ جہاں دور دور سے لوگ آتے، عبادات کرتے اور ان رہائشی کمروں میں رہائش اختیار کرتے۔ گرد و نواح کے دیہات سے تو لوگ پورا سال جوق در جوق حاضری دیتے۔ سائیں نورالدین جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو ان کی نگاہیں مزار پر ہی لگی ہوئی تھیں اور اسی دوران ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ سائیں نورالدین کو صاحب مزار سے عشق تھا اور انہوں نے اپنی تمام زندگی اسی عشق کی نذر کرکے خود کو حضرت مرطوشؑ کے قدموں میں رکھ دیا‘‘۔
جیسے ہی قبر کی زیارت کیلیے مزار میں داخل ہوں تو اندرونی احاطے میں پہلی قبر سائیں نورالدین کی دکھائی دیتی ہے۔ قبر کے اردگرد گندم کے بھرے ہوئے تھیلے پڑے تھے جبکہ ایک بڑے ٹب میں گندم بھی دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ گندم مدرسے میں قیام پذیر بچوں کیلئے لائی جاتی ہے، جگہ کی کمی کے باعث یہاں بھی رکھ دی جاتی ہے، گندم اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کا انتظام لوگ کرتے ہیں جو سارا سال جاری رہتا ہے۔ امام مسجد حافظ ارشد کا کہنا تھا کہ ’’یہاں سیکڑوں کی تعداد میں بچے زیر تعلیم ہیں، جن کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام یہیں متصل کمروں میں کیا گیا ہے‘‘۔ مزار کے سامنے ایک بڑا احاطہ ہے،جس کی چار دیواری میں یہ رہائشی کمرے اور مدرسہ موجود ہے۔ مزار کی عقبی سمت ایک چھوٹی سی چاردیواری میں چار پختہ قبریں موجود ہیں۔ ان قبروں کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کن کی قبریںہیں۔ بعض لوگوں کا قیاس ہے کہ یہ عقیدت مندوں کی قبریں ہیں جو سائیں کے ساتھ یہاں خدمت گزاری کرتے تھے۔ بعض لوگوں کے دعوے کے مطابق یہ قبریں بھی حضرت مرطوشؑ کی قبر کے ساتھ ہی دریافت کی گئیں تھی۔ بہرحال جو بھی حقیقت تھی، یہ چاروں قبریں، عام قدکاٹھ کے لوگوں کی ہیں، جن پر سنگ سیاہ لگایا گیا ہے، ان میں وسطی دو قبریں نسبتاً چھوٹی اور دیگر قبریں بڑی ہیں۔
گجرات اور اس کے گرد نواح میں نو گز لمبی قبور کافی تعداد میں موجود ہیں، جن کے بارے میں مختلف لوگ الگ الگ کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ قاضی سلطان محمود کی ایک کتاب ’’مناقب محمودی‘‘ میں ان قبور کے بارے کچھ نہ کچھ معلومات مل جاتی ہیں۔ اس کتاب کی تدوین جس نے کی وہ ایک نواب صاحب تھے، جن کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ وہ جب موٹا میں حضرت مرطوشؑ کی قبر پر تشریف لائے تو ا ن پر عائد بہت ساری پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ ان نواب صاحب کے بارے میں حامد حسین سید لکھتے ہیں کہ ’’نواب معشوق یار جنگ بہادر کا تعلق بدایوں سے تھا، جہاں ان کے والد خان بہادرافسر مال، بارک زئی قبیلہ سے تھے۔ انہوں نے الہ آبادمیں سکونت اختیار فرمائی۔ بعد ازاں ریاست بھوپال میں وزیر عدالت کے عہدہ پر فائز کیے گئے۔ نواب معشوق یار بہادر جنگ نے علی گڑھ سے بی اے کیا، عربی فاری میں اچھی استعداد رکھتے تھے، مولانا حالی اور شبلی سے نواب صاحب بہت متاثر تھے۔ مولوی عبدالحق ان کے احباب میں سے تھے۔ نواب معشوق یار بہادر جنگ نے حیدر آباد دکن میں اہم خدمات پر عمر گزاری، پنشن لی، سقوط حیدر آباد کے بعد کراچی آگئے۔ نواب کو اہل اللہ سے خاص انس تھا، حضرت بابا سوات کے خلیفہ نے دکن میں انتقال فرمایا، ان کے خلیفہ حضرت عبدالوحیدشاہ بخاری تھے، ان کی صحبت میں اہل اللہ کی محبت نواب صاحب کے دل میں بیدار ہوئی۔ نواب فخر یارجنگ بہادر وزیر مال حیدر آباد حضرت قاضی سلطان محمود ، اعوان شریف کے ارادت مندوں میں سے تھے۔ ان سے نواب معشوق یار جنگ بہادر نے پیر دستگیر کی باتیں سنیں پھر شوق ملاقات کشاں کشاںدکن سے گجرات ڈیڑھ ہزار میل لے آیا۔ نواب صاحب بیعت ہوئے اور چند تبرکات حاصل کیں۔ اس دورے سے کچھ مدت بعد آپ نے شیخ چوگانی ،شیخ سلمان صاحب، ملہو کھوکھر اور صاحب موٹاکے مزارات کی زیارت کی، اس کے بعد دیگر نو گزی قبور کی زیارت بھی کی گئی، جیسا کہ طاہر اور کیرانوالہ میں ہیں۔ ان سب میں صاحب موٹا (حضرت مرطوشؑ) کی زیارت سے آپ کو بہت مسرت ہوئی، یہاں اکثر آتے جاتے رہے، یہاں آنے سے یہ ہوا کہ خوراک و لباس پر جو پرہیز پابندیاں تھیں، سب اٹھا لی گئیں اور بقدر ضرورت استعمال کی اجازت مل گئی۔ یہ آواز کانوں میں آئی ’قل من حرم زینتہ اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیبات من الرزق (اعراف)۔ کہو کس نے پاکیزہ کھانوںاور زیتون کو حرام کیا جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں‘‘۔ اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب کو موٹا میں حضرت مرطوشؑ کے مزار سے فیض و برکات حاصل ہوئیں۔ ہم اب اسی مزار پر موجود تھے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment