مولانا سمیع الحق قتل کیس میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی

نجم الحسن عارف
مولانا سمیع الحق کی شہادت کو دوسرا ہفتہ شروع ہو گیا ہے، مگر اب تک پولیس اور حکومت قتل کی تحقیقات میں قابل ذکر پیش رفت نہیں کر سکی ہے۔ مولانا شہید کے خاندان کو اس امر سے بھی بے خبر رکھا گیا ہے کہ فارنسک رپورٹ میں کیا چیز ثابت ہوئی اور یہ کہ بحریہ ٹائون کے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے قاتل تک پہنچنے میں کوئی مدد مل سکی یا نہیں۔ ملک کے ممتاز دینی ادارے کے مہتمم، دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق شہید کے پوتے عبدالحق ثانی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ہفتے کے روز تک سرکاری حکام نے یہی رپورٹ کیا تھا کہ ابھی تک قاتل یا قاتلوںکا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ مولانا سمیع الحق شہید کے داماد سید یوسف شاہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ابھی تک پولیس نے کوئی بات نہیں بتائی۔ نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ فارنسک رپورٹ لیبارٹری سے پولیس کو مل چکی ہے یا نہیں۔ موبائل فونز کے ڈیٹا سے بھی کسی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ سید یوسف شاہ کے بقول مولانا کا قتل کسی ایک فرد کا ہدف نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک نظریاتی شخصیت تھی اور ان کے نظریات بڑے واضح تھے۔ اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ تحقیقات میں وقت لگ سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سید یوسف شاہ نے کہا کہ بحریہ ٹائون کے سی سی ٹی وی کیمروں سے پولیس نے اپنی تفتیش و تحقیقات میں کیا مدد لی ہے اور کیا نہیں، اس بارے میں بھی کچھ شیئر نہیں کیا گیا ہے۔
واضح رہے دو نومبر کو مولانا سمیع الحق، ملعونہ آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے بریت کے خلاف اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کے لئے نوشہرہ کیلئے روانہ ہوئے، لیکن راستے بلاک ہونے کے باعث احتجاجی مظاہرے سے خطاب نہ کر سکے اور راولپنڈی میں اپنی رہائش گاہ پر آرام کے لئے پہنچ گئے۔ جہاں انہیں بہیمانہ طریقے سے شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت کی خبر آناً فاناً پورے ملک میں پھیل گئی اور حکومت نے فوری طور پر تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی قائم کر دی۔ لیکن نو دن گزرنے کے باوجود وفاقی دارالحکومت سے جڑے شہر راولپنڈی کی انتہائی محفوظ سمجھی جانے والی پوش آبادی بحریہ ٹائون میں اس دہشت گردی کا اب تک کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ نہ ہی کوئی باضابطہ گرفتاری ممکن ہو سکی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مولانا سمیع الحق کو جس کمرے میں چھری کے وار کر کے شہید کیا گیا، وہاں سے 25 کے قریب نمونے، فارنسک ٹیسٹ کیلئے لئے گئے تھے۔ لیکن اب تک اس فارنسک رپورٹ کو اتا پتا ہے اور نہ اس کی بنیاد پر تفتیش کو آگے بڑھایا جا سکا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق کو شہید کئے جانے کے بعد ان کے کمرے کی جو تصاویر جعلسازی کرکے سوشل میڈیا پر پھیلائی گئں اس کے متعلق تو معلوم ہو گیا کہ یہ تصاویر افغانستان کے ایک بیرون ملک سفارتخانہ نے پھیلائی ہیں۔ لیکن سرکاری طور پر حکومت یا ایف آئی اے کی طرف سے اس بارے میں یہ ڈکلیئر نہیں کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر ایک مہم کے طور پر پھیلائی گئی جائے وقوعہ سے متعلق ظاہر کی گئی تصاویر کا ایف آئی اے یا اس کے سائبر کرائم ونگ نے کیا نوٹس لیا ہے اور کیا کارروائی کی گئی ہے۔ اور کہیں ان تصاویر کو پھیلانے کا اہتمام ان کے قاتلوں نے ہی تو نہیں کیا۔ نیز یہ کہ قاتلوں اور سوشل میڈیا پر مولانا سمیع الحق کو بعد از شہادت بدنام کرنے کی مہم چلانے والوں کا باہمی تعلق کیا ہے۔ حالانکہ مولانا شہید کے خاندان نے اس جانب ایف آئی اے کی توجہ بھی مبذول کرائی تھی۔ ذرائع کے مطابق پولیس حکام کی جانب سے اب تک مولانا کی قمیص کے فنگرز پرنٹس یا کمرے کے اندر سے ملنے والے فنگر پرنٹس کے نتائج کا بھی اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ مولانا سمیع الحق شہید کے زیر استعمال موبائل فون کے علاوہ ان کے ذاتی ملازم اور عزیز، احمد شاہ کے موبائل کا ڈیٹا حاصل کر کے اس کی بنیاد پر تین افراد تک تفتیش و تحقیقات کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ مولانا سمیع الحق کے قریبی عزیز اور ذاتی خدمت گار احمد شاہ کو بھی اب تک باضابطہ طور پر شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک جانب پنجاب پولیس نے محض چند دنوں میں تحفظ ناموس شان رسالت کے حق میں دھرنے دینے اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف توڑ پھوڑ کے الزامات میں نہ صرف مقدمات درج کئے، بلکہ احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کا تخمینہ بھی لگا لیا گیا ہے۔ لیکن مولانا سمیع الحق کے قتل کے حوالے سے فارنسک رپورٹ کے بارے میں پولیس حکام مکمل خاموش ہیں۔ ذرائع کے بقول اگر تکنیکی بنیادوں پر دیکھا جائے تو فارنسک رپورٹ یا جائے واردات سے ملنے والے چند بالوں کا ڈی این اے تین سے چھ دنوں تک بڑی آسانی سے ہو سکتا تھا، لیکن اب تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت آن ریکارڈ نہیں ہے۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ تفتیشی ٹیم کے ایک ذمہ دار پولیس افسرکی تبدیلی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ گزشتہ روز (اتوار کو) تبدیل کئے گئے پولیس افسر کے حوالے سے پولیس حکام نے وزیر قانون پنجاب بشارت راجہ کے ساتھ ایک طویل میٹنگ بھی کی ہے۔ دوسری جانب جس نئے پولیس افسر کو اس ٹیم کی سربراہی کی ذمہ داری دی گئی ہے، انہوں نے گوجرانوالہ سے راولپنڈی میں جوائننگ نہیں دی ہے۔
’’امت‘‘ نے تفتیش و تحقیقات کے سلسلے میں اب تک کی پیش رفت کے بارے میں جاننے کے لئے مولانا سمیع الحق شہید کے صاحبزادے مولانا حامدالحق سے بھی رابطے کی کوشش کی۔ لیکن بتایا گیا کہ وہ تعزیت کے لئے آنے والوں کے ساتھ ہیں۔ جبکہ مولانا کے دوسرے صاحبزادے راشدالحق کے بارے میں پتہ چلا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

Comments (0)
Add Comment