بارہ ربیع الاول کے بعد تحریک لبیک قیادت کی گرفتاری کا پلان

نمائندہ امت
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بارہ ربیع الاول کے بعد تحریک لبیک کی قیادت کو گرفتار کرنے کا پلان بنا لیا گیا ہے اور یہ کہ ٹی ایل پی کے منتخب ارکان اسمبلی کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان نے اپنے قائدین یا ارکان اسمبلی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی پر سخت رد عمل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک لبیک کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو وہ بھی معاہدے کے پابند نہیں رہیں گے اور حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک دوبارہ شروع کی جاسکتی ہے۔ ان رہنمائوں کے بقول ’’ہم پاکستان بنانے والوں کے وارث ہیں۔ پاکستان اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے وجود میں آیا تھا۔ پاکستان بنانے والوں کے وارثوں اور اسلامی قوانین اور تحفظ ناموس شان رسالت کیلئے متحرک قیادت کے خلاف کارروائی ان قوتوں کا ایجنڈا اور مشن ہو سکتا ہے، جو پاکستان میں امن نہیں چاہتے۔ لہٰذا حکومت اپنی صفوں کے اندر موجود بیرونی دشمنوں سے ہوشیار رہے اور معاہدے کی پاسداری کرے‘‘۔
واضح رہے کہ راولپنڈی سے رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی نے گزشتہ روز ایک لائیو پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ حکومت تحریک لبیک کی مرکزی قیادت کو گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لائے گی اور کسی کو بھی غیر آئینی و غیر قانونی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سے پہلے بعض وفاقی وزرا بھی کہتے رہے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کی ضرورت ہے اور حکومت مناسب وقت پر ایسے تمام عناصر کے خلاف کارروائی کرے گی جو اس کے خیال میں انتہا پسند ہیں یا انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک ذمہ دار عہدیدار نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر شعبے میں انتہا پسندانہ سوچ کی روک تھام حکومت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ مذہبی حوالے سے تحریک لبیک کی قیادت گزشتہ چند ہفتوں سے بہت متحرک ہے۔ ماضی میں بھی ٹی ایل پی کا رویہ حکومت کے سامنے ہے۔ اس لئے حکومت نے یہ دو ٹوک فیصلہ کرلیا ہے کہ تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ایک سوال پر ان ذمہ دار عہدیدار کا کہنا تھا کہ، حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ خون خرابہ اور امن و امان کی صورت حال بھی خراب نہ ہو۔ اس حوالے سے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔ ان لوگوں کو سڑکوں سے ہٹاکر ان کے گھروں کو بھجوا دیا گیا اور اب آپ دیکھیں گے کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں ان کی قیادت بھی قانون کی چھتری کے نیچے سے گزر کر عدالت اور جیل میں ہوگی‘‘۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس ذریعے نے یہ بھی کہا کہ ’’اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ٹی ایل پی بہت جلد قانونی پابندی کا شکار ہوگی اور وہ سندھ اسمبلی میں اپنے دو ارکان کی رکنیت بھی کھو سکتی ہے‘‘۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں جب تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان اور مرکزی سیکریٹری نشر و اشاعت پیر اعجاز ہاشمی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ہم اور ہماری قیادت کل بھی اسی ملک میں تھے اور آج بھی ہیں اور انشاء اللہ آنے والے کل بھی یہیں ہوں گے۔ دیگر جماعتوں کے قائدین کی طرح ہماری قیادت مشکل وقت میں علاج یا کسی دوسرے بہانے سے کسی غیر ملک نہیں جائے گی۔ ہم پاکستان بنانے والوں کے اور پاکستان کے وارث ہیں۔ جس کو مقدمات کا شوق ہے، وہ پورا کرلے۔ ہم گھبرانے والے نہیں اور نہ ہی تحفظ ناموس شان رسالت کے اپنے مشن اور عزم سے کسی صورت باز آئیں گے‘‘۔ ایک سوال پر پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ ’’اصل مسئلہ مقدمات نہیں، بلکہ تحفظ ناموس شان رسالت کا ہے اور اس پر ہماری نظریں ہیں۔ جہاں تک حکومت کے ساتھ کئے گئے معاہدے اور کسی کی گرفتاری یا رہائی کا تعلق ہے تو حکومت کے جن ارکان نے ہمارے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے، ان سے ہمارے متعلقہ ذمہ داران کا رابطہ بھی ہے اور معاہدے کے مطابق کارکنان رہا بھی ہو رہے ہیں۔ دراصل بعض قوتیں جو ملک میں امن و امان کے بجائے انتشار چاہتی ہیں اور ان کا ایجنڈا ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے، وہ ایسی خبریں بھی پھیلاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ایسے حالات پیدا ہوں کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو۔ ایسے لوگ پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں۔ ہمارا حکومت کو مشورہ ہے کہ ایسے عناصر اندرونی ہوں یا بیرونی، ان پر نظر رکھے اور ان کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرے‘‘۔ پیر محمد اعجاز ہاشمی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ہم پاکستان بنانے والوں کے وارث ہیں اور پاکستان اور اس کے اساسی نظریے کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم اپنے اس فرض کو بھول جائیں۔ جو لوگ لاہور ہائی کورٹ میں ہماری قیادت کے خلاف مقدمے درج کرانے کے لئے درخواست لے کر گئے ہیں، وہ سستی شہرت کے لئے یہ کام کر رہے ہیں۔ ہم اس سے خوفزدہ ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے۔ تحفظ ناموس شان رسالت کے عظیم مشن کی راہ میں ہم نے جان، مال اور اولاد سب کچھ قربان کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ گرفتاری اور مقدمات ہماری راہ میں حائل نہیں ہوسکتے‘‘۔ ٹی ایل پی کے ایک اور اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اگر کسی نے مقدمہ درج کرکے تحریک لبیک کی قیادت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی تو اسے لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ مقدمات قائم کرنے کی صورت میں حکومت ان مقدمات کی سماعت اور اس کے نتائج کو بھی مد نظر رکھے۔

Comments (0)
Add Comment