امت رپورٹ
آصف زرداری کی گرفتاری کے لئے انور مجید کے وعدہ معاف گواہ بننے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جیسے ہی سابق صدر کے دست راست وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں، شریک چیئرمین پی پی کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ کچھ عرصے سے میڈیا پر آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری کی خبریں چل رہی ہیں۔ بالخصوص پچھلے ایک ہفتے سے ان خبروں میں تیزی آئی ہے۔ حتیٰ کہ سابق صدر خود بھی اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس میں اس وقت آصف زرداری اور فریال تالپور عبوری ضمانت پر ہیں، جبکہ حسین لوائی، طہٰ رضا، انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی گرفتار ہیں۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں اہم شواہد اکٹھے کئے جا چکے ہیں اور اب دونوں بہن بھائیوں کی گرفتاری کے حوالے سے حتمی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم کوشش ہے کہ یہ قدم اٹھانے سے پہلے کیس کے اہم ملزم انور مجید کو وعدہ معاف گواہ بنا لیا جائے۔ تاکہ سابق صدر پر مضبوط ہاتھ ڈالا جا سکے۔
ایف آئی اے نے اگست کے وسط میں اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی کو سپریم کورٹ کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ انور مجید نے سابق صدر کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی ہامی تو بھر لی ہے، لیکن اس عمل کو قانونی شکل دینے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ کیونکہ انور مجید کو خوف ہے کہ انہیں یہ قدم اٹھانے کا ردعمل بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ جس کے سبب انور مجید نے اب تک بطور وعدہ معاف گواہ مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کرایا ہے۔ ذرائع کے مطابق انور مجید کو وعدہ معاف گواہ بننے کی صورت میں اپنی فیملی کے حوالے سے سیکورٹی خدشات ہیں اور ان کے ذہن میں ماضی میں آصف زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے والے اسٹیل ملز کے سابق چیئرمین سجاد حسین کا واقعہ ہے۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جلد ہی انور مجید کے تحفظات دور کر دیئے جائیں گے۔
واضح رہے کہ 1998ء میں قتل ہونے والے چیئرمین اسٹیل ملز سجاد حسین کے قتل کیس میں آصف علی زرداری، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، محمد خان چاچڑ، نثار مورائی، سلیم الدین عرف سلو اور سہیل احمد عرف پنگا کو شریک ملزمان قرار دیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں عدالت نے آصف زرداری اور ذوالفقار مرزا کو اس کیس میں بری کر دیا۔ جبکہ نثار مورائی اور سلیم الدین اور سہیل احمد کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔ دو برس قبل ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سائوتھ نے اس کیس میں نثار مورائی پر فرد جرم عائد کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انور مجید اور ان کا بیٹا دوران تفتیش آصف زرداری کے خلاف بہت کچھ اگل چکے، جبکہ اس کیس میں سابق صدر کے خلاف اہم شواہد اکٹھے کئے جا چکے ہیں۔ اگر انور مجید کو باقاعدہ وعدہ معاف گواہ بھی بنا لیا جاتا ہے تو پھر پی پی کے شریک چیئرمین کے بچ نکلنے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ ان ہی کوششوں کی وجہ سے آصف زرداری کی گرفتاری تاخیر کا شکار ہو رہی ہے، ورنہ اب تک سابق صدر پر ہاتھ ڈالا جا چکا ہوتا۔ ممکنہ گرفتاری کے باوجود آصف زرداری کے اعتماد کے بارے میں ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ پرانے کھلاڑی ہیں۔ لہٰذا اتنی جلدی خوف زدہ نہیں ہوں گے۔ سابق صدر اصل دبائو میں اس وقت ہی آئیں گے جب انور مجید ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرا دیں۔
ادھر اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری کی گرفتار کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے، لیکن ٹھوس شواہد کی موجودگی میں ان کا بچنا بہت مشکل ہے۔ ذرائع کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران آصف علی زرداری کی جانب سے طاقت کے اہم مراکز کو نصف درجن کے قریب مفاہمت کے بالواسطہ پیغامات بھیجے جا چکے ہیں۔ لیکن کسی ایک پیغام کا بھی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا۔ کیونکہ پالیسی ساز یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ صرف نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کارروائیوں سے یک طرفہ احتساب کا بیانیہ مضبوط ہو اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں پر انگلیاں اٹھیں۔ ذرائع کے بقول تکنیکی طور پر ویسے بھی این آر او اندرونی طور پر نہیں، بلکہ باہر سے مسلط کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مشرف دور میں پیپلز پارٹی سے کرائے جانے والے این آر او میں امریکہ اور برطانیہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم اس وقت کسی بیرونی طاقت کو آصف زرداری میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل سابق صدر کی طرف سے اس سلسلے میں کی جانے والی کوششیں ناکام رہیں۔ اس کا سبب بیان کرتے ہوئے ماضی میں ایک اہم ادارے سے منسلک افسر نے بتایا کہ موجودہ پاور پلے میں آصف زرداری کا کوئی رول نہیں بن رہا۔ اس ٹائم فریم میں بیرونی طاقتیں انہیں کہاں فٹ کریں گی؟ صورت حال مشرف دور سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اس وقت بیرونی طاقتوں کو اپنے مفادات سے متعلق اہم فیصلے کرانے کے لئے پاکستان میں ایک مقبول سول حکومت کی ضرورت تھی۔ کیونکہ عوام میں جڑیں نہ ہونے کی وجہ سے بطور ڈکٹیٹر پرویز مشرف اگر چاہتے بھی تو بیرونی طاقتوں کے ٹاسک کو پورا نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا متبادل کے طور پر بے نظیر بھٹو کا انتخاب کیا گیا تھا، جو این آر او سے پہلے ہی فاٹا میں نیٹو کو اجازت دینے سمیت دیگر کئی اہم بیانات دے چکی تھیں۔ البتہ پاکستان آنے کے بعد جب بے نظیر بھٹو کو احساس ہوا کہ مشرف حکومت تو ابھی تک قاف لیگ کو سپورٹ کرنے کا ارادہ کئے بیٹھی ہے تو پھر انہوں نے لائن بدل لی۔ لیکن پھر ان کے قتل کا افسوسناک واقعہ ہو گیا۔ اور پیپلز پارٹی کی کمان آصف زرداری نے سنبھال لی تو بیرونی طاقتوں کی توجہ ان پر مرکوز ہو گئی۔ این آر او پر عمل درآمد ہوا اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی پی گورنمنٹ نے کیری لوگر بل کی شکل میں مغربی قوتوں کے مفادات پورا کرنے کی کوشش کی، جو ناکام بنا دی گئی۔ سابق افسر کے بقول یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اس وقت کے ٹائم فریم میں جو پاور پلے تھا، اس میں آصف زرداری کا رول بن رہا تھا۔ لیکن اب ایسی صورت حال نہیں۔ لہٰذا سابق صدر کی بچت کے بیرونی دروازے بھی بند ہو چکے ہیں۔
ادھر پیپلز پارٹی کے یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ منگل کے روز جب اپنی عبوری ضمانت میں توسیع کرانے کے لئے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ عدالت جائیں گے تو ضمانت منسوخ کر کے ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق سابق صدر گرفتاری سمیت کسی بھی قسم کے نامساعد حالات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس سے پہلے پی پی کے شریک چیئرمین یہ خیال کر رہے تھے کہ وہ گرفتاری سے بچنے کا کوئی راستہ نکال لیں گے۔ تاہم پچھلے ایک ماہ سے پے در پے ہونے والی ڈویلپمنٹ کے نتیجے میں انہیں اپنی ممکنہ گرفتاری کا اندازہ ہو گیا ہے۔ یہ بات پارٹی کے رسمی و غیر رسمی اجلاسوں میں اہم رہنمائوں کے ساتھ کئی بار ڈسکس بھی ہو چکی ہے۔