قسط نمبر57
سید ارتضی علی کرمانی
بیماری کے ایام میں آپ اکثر اشعار پڑھا کرتے اور حضرت ثانی سیالوی کا ذکر خیر فرماتے۔ یہ اشعار بھی حضرت صاحبؒ ثانی سیالوی کی جدائی میں کہے تھے۔
ساربان مہرباناں راہیا
شالا جیویں خیر تھیوی ماہیا
آکھیں جا انہاں پیاریاں دل جانیاں
گوڑھے نیناں والیا مستانیاں
بن تساڈے ہک گھڑی سو سال دی
بہہ ٹھکانے پئی تساڈے بھالدی
لاپریتاں دے کے لارے اوہ گئے
اوہ گئے او دل دے پیارے او گئے
سارا عالم صدقے آکھاں بول توں
بھلاے نئیں اوہ بول مٹھڑے ڈھول دے
بول سانول یار روہی رولدے
حضرت ثانی سیالویؒ کے ساتھ آپ کا پیار اور عقیدت ایک مثال تھی۔ یہ اشعار آپ نے ان کی بیماری کے دوران کہے تھے۔ انہی ایام میں آپ وادی احمر میں نبی کریمؐ کی خواب میں زیارت کو اکثر یاد فرماتے۔ جب سرکار دو عالمؐ نے فرمایا کہ’’آل رسولؐ کو میری سنت ترک نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
مارچ، اپریل 1937ء میں حضرت صاحبؒ نے متعدد بار سورئہ یٰسین، سورئہ یوسف، سورئہ تغابن، سورئہ ملک، سورئہ مزمل، درود متغاث شریف سلسلہ شریف مشائخ کرام، درود کبریت احمر اور دعائے کبر مولانا قاری غلام محمد صاحب خطیب جامعہ سے استماع فرما کر حاضرین، متوسلین اور تمام اہل اسلام کے لئے بارگاہ رب العزت میں دعا فرمائی۔ سن وصال کے ماہ محرم میں زائرین کی تعداد بتدریج بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ چھ سات سو یومیہ تک پہنچ گئی۔
ماہ صفر میں حضرت صاحب کو زکام اور میعادی بخار کا عارضہ لاحق ہوا، جس سے بالآخر مایوس کن اثرات کا ظہور ہوا۔ آخری تین روز یہی کیفیت رہی کہ بار بار دست حق پرست دعا کے اٹھاتے۔ پھر اپنے چہرہ مبارک کے سامنے تک لے جاتے۔ کبھی کبھی نیاز مندوں کی بار بار کی التجا پر چشم حق واہ فرماتے۔
یوم شنبہ 29 صفر 1354ھ بمطابق 11 مئی 1937ء کی صبح نبض کی یہ حالت تھی کہ داہنے ہاتھ کی نبض رک رک کر چلتی تھی اور بائیں طرف یعنی قلب کی طرف والی نبض حسب معمول جاری تھی، ٹمپریچر پہلے 95 اور پھر 92 ہوگیا۔ گیارہ بجے حضرت صاحب کو مسند لگا کر تھوڑی دیر تک بٹھایا گیا۔ پھر لٹا کر حسب دستور سرما لگایا گیا۔ بوقت عصر ساڑھے پانچ بجے دونوں ہاتھ اٹھا کر اشارہ فرمایا کہ جس کی تعمیل میں آپ کو سہارا دے کر اٹھایا گیا اور آپ تکیہ پر سہارا لئے بغیر سیدھے بیٹھ گئے۔ اس وقت حضرت صاحبؒ نے اپنی گردن کو ذرا سا ایک طرف جھکا کر تبسم فرمایا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت ملائکہ رحمت اور مشائخ عظام کی ارواح طیبہ ارمغان بشارت نچھاور کررہے ہیں اور آپؒ کو مسرت ہو رہی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب کو آپؒ کے اشارے پر لٹا دیا گیا۔ ملک سلطان محمود صاحب معتمد صیٖٖغہ مراسلات جو اس وقت خدمت عالیہ میں حاضر تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دست راست کی نبض پر ہاتھ رکھا تو وہ رک رک کر چلتی تھی۔ مگر بائیں ہاتھ کی نبض پوری طرح جاری تھی۔ بعد میں آں شہباز اوج روحانیت حق تعالیٰ کے اسم مبارک ایک ہی مرتبہ آہستہ، مگر ایسی طویل اور عمیق آواز میں زبان شوق از قلب عرفان سے ادا فرمایا کہ اس کی گونج آپ کے دماغ عالی سے لے کر قدم مبارک کے ناخنوں تک پورے بدن اطہر میں رگ وریشہ اور سینہ مجلی کی وسیع گھاٹیوں میں پھیل گئی۔
اس وقت ایک صاحب کرم شاہ صاحب سکنہ غوت پور قریشیاں متبان حضرت صاحب کے قدم مبارک دبا رہے تھے۔ انہی کا بیان ہے کہ قدم میں بجلی کی کرنٹ سی محسوس ہوئی اور میرے ہاتھ اوپر اٹھ گئے۔ یہ کیفیت عالم نمود کی الوداعی جھلک تھی۔ جس میں آیا سلطان العارفین نے داعی وصال کا روحی خیر مقدم کیا۔ بہار نمود نے نمود بہار سے منتقل ہو کر چمنستان برزخ کی طرف کوچ کیا اور مظہر نمود صحیفہ رخ انور پر زعفرانی رنگ مشاہدہ ہوا۔ چہرہ مبارک وصال سے مجسمہ بنا پر نظر آیا۔ پھر دوبارہ متوسلین کو الوادعی تلقین میں اس طرح رسم ذات شریف کا اعادہ فرما کر رو بقبلہ ہوگئے۔
دوسرے روز یعنی بدھ یکم ربیع الاول 1356ھ بمطابق 12 مئی 1937ء ایک بجے تا چھ بجے شام تک حضرت صاحب کی چار پائی مبارک کو آستانہ عالیہ کے مہمان خانہ میں ایک اونچی جگہ تخت پر رکھ دیا گیا۔ تاکہ زائرین با آسانی آخری زیارت سے مستفید ہوگئیں۔
آٹھ بجے رات قبلہ روحانیت محبوب الٰہی تشریف وطن اصلی عالم مقدس ہوئے۔ حضرت صاحب کا جسد خاکی مسجد کے جنوبی باغ میں اس جگہ دفن کیا گیا، جس جگہ کے بارے میں بیماری کے دوران اشتیاق فرمایا تھا۔ (جاری ہے)