ابیض اور برصیصا کا عبرتناک واقعہ

آخری قسط
عبدالمالک مجاہد
جب یہ لوگ شام کو سو گئے تو سب سے بڑے بھائی کے خواب میں وہی شیطان آیا۔ اُس نے کہا: تیری خرابی ہو! برصیصا عابد نے تیری بہن سے یہ شرمناک حرکت کی ہے اور اسے فلاں پہاڑ کے پاس فلاں جگہ دفن کر دیا ہے۔بھائی نے من ہی من میں کہا: یہ خواب، خوابِ بد ہے۔ برصیصا عابد سچا ہے۔ وہ شیطان اسی طرح مسلسل تین راتوں تک اس بڑے بھائی کے خواب میں آکر اسے برصیصا عابد کے خلاف ورغلاتا رہا، لیکن اسے کوئی نتیجہ خیز جواب نہ مل سکا۔ وہ یکے بعددیگرے پہلے منجھلے بھائی اور پھر چھوٹے بھائی کے خواب میں بھی اسی طرح آیا۔ چھوٹے بھائی نے دونوں بڑے اور منجھلے بھائیوں سے اپنا خواب بیان کیا۔ منجھلے اور بڑے بھائیوں نے بھی بتایا کہ ہمیں بھی ایسا ہی خواب آیا ہے۔
اب وہ تینوں بھائی دوبارہ برصیصا عابد کے پاس آئے اور اپنی بہن کے بارے میں دریافت کیا۔ برصیصا عابد نے جواب دیا: میں نے تم لوگوں کو تمہاری بہن کی خبر سے آگاہ کر دیا ہے، لیکن شاید تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔ بھائیوں نے کہا: خدا کی قسم! ہماری طرف سے آپ پر کوئی الزام نہیں، یہ لوگ اس بات سے بہت شرمندہ ہوئے اور اپنے گھر واپس چلے گئے۔
بھلا شیطان کب خاموش رہنے والا تھا۔ ان کے پاس پھر آ دھمکا اور کہا: تم لوگ برباد ہو جائو! تمہاری بہن فلاں جگہ دفن کی گئی ہے۔ جا کر دیکھو، اس کا ازار بند بھی مٹی کے اوپرہی نظر آ رہا ہے۔ وہ لوگ شیطان کی بتلائی ہوئی جگہ پہنچے، زمین کھودی۔ اب جو دیکھا تو لڑکی کی لاش موجود تھی۔ یہ دیکھ کر وہ غضبناک ہوگئے۔ فوراً برصیصا عابد کے پاس پہنچے اور کہا: چل خدا کے دشمن، نیچے اتر، تو نے ہماری بہن کو کیوں قتل کیا؟ پھر ان لوگوں نے برصیصا عابد کا گرجا منہدم کر دیا۔ اس کی گردن میں رسی باندھی اور اُسے کھینچتے ہوئے بادشاہ کے دربار میں پہنچے۔
بادشاہ کے رُوبرو برصیصا عابد نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور بتایا کہ اس جرم پر مجھے شیطان نے اُکسایا تھا۔
بادشاہ نے کہا: تو نے لڑکی کو قتل کیا، اب اس کا اعتراف بھی کر رہا ہے، پس تیری سزا موت ہے، پھر بادشاہ نے برصیصا عابد کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔
اب ابیض شیطان برصیصا عابد کے پاس آیا اور پوچھا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟
برصیصا عابد نے کہا: نہیں۔
شیطان نے کہا: میں تمہارا وہی دوست ہوں، جس نے تمہیں دعائیں سکھائی تھیں۔ تمہاری خرابی ہو! تمہارے پاس جو امانت رکھی، اس میں تم نے خدا کا خوف نہیں کیا اور خیانت کر ڈالی، کیا تمہیں خدا سے شرم نہیں آتی۔ تم نے تو بادشاہ کے سامنے بھی اقبالِ جُرم کر لیا اور یوں تم نے خود اپنی اور اپنے
جیسے دوسرے عبادت گزاروں کی بھی مٹی پلید کر دی۔ اگر تمہیں اسی حال پر موت آ جائے تو تم اور تمہارے جیسا کوئی عابد وزاہد بھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔
برصیصا عابد نے پوچھا: پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟
شیطان نے کہا: میری ایک بات مان لو تو میں تمہیں بچا لوں گا۔ ان لوگوں کی آنکھوں سے تمہیں اوجھل کر دوں گا اور تمہیں تمہاری موجودہ قید سے رہائی دلادوں گا۔
برصیصا نے پوچھا: وہ کون سی بات ہے؟
شیطان نے کہا: مجھے سجدہ کرو۔
برصیصا نے شیطان کو سجدہ کر دیا۔
شیطان بولا: بس میں تجھ سے یہی گھناؤنا جرم کرانا چاہتا تھا۔ اب تیرا انجام کفر نکلا اور ’’میں تجھ سے بری ہوں۔ ‘‘
پھر برصیصا خسر الدنیا والآخرہ ہو کر قتل کر دیا گیا۔
قارئین کرام! بہت سے مفسرین کرام نے سورۃ الحشر کی آیت نمبر 16 کی تفسیر میں یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح ہے:
’’(ان منافقوں کی) مثال شیطان جیسی ہے کہ وہ انسان سے کہتا ہے: کفرو کرو، جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو کہتا ہے: میں تجھ سے بری الذمہ ہوں۔ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔‘‘
بعض اہل علم نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ برصیصا محض عابد تھا۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ شریعت کا عالم بھی ہوتا تو شاید ان جرائم میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا۔ اس لیے عبادت کی کثرت کے ساتھ شریعت کا علم ہونا نہایت ضروری ہے۔

Comments (0)
Add Comment