زینت محل پر ٹامس مٹکاف کوزہر دینے کا الزام لگایا گیا

قسط نمبر257
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
مرز افتح الملک شاہ بہادر کی ولی عہدی کو چند ہی مہینے گزرے تھے کہ ٹامس مٹکاف صاحب کلاں بہادر کو پیٹ کی تکلیف شروع ہوئی۔ تشنج شکم، امتلا، اسہال اور ہلکی تپ نے انہیں جلد ہی بے حال کر دیا۔ جب انگریز ڈاکٹروں کی معالجت کامیاب نہ ہوئی تو اطبائے یونانی، ہندوستانی بید اور پھر سیانے اور مولوی بھی بلائے گئے، لیکن مرض میں تخفیف کے بجائے اشتداد آتا گیا۔ مٹکاف صاحب بار بار کہتے کہ مجھے زہر دیا جا رہا ہے اور اب میں ہر گز نہ بچوں گا۔ ڈاکٹروں، مولویوں اور سیانوں، جھاڑ پھونک منتر کرنے والوں، سب نے بار بار کہا کہ سرکار کے بدن اور روح میں زہر کا کوئی اثر نہیں، لیکن مٹکاف کو یقین نہ آتا تھا۔ اور یقین کیونکہ آتا، جب اسے کسی طور افاقہ ہوتا ہی نہ تھا۔ جو کچھ بطریق غذا یا دوا وہ کھاتا، اس کا بڑا حصہ استفراغی ہو کر خارج ہو جاتا۔
دلی کے افواہ گروں کے لئے تو یہ خداداد موقع تھا۔ سارے میں مشہور ہو گیا کہ نواب زینت محل ملکہ دوراں نے صاحب کلاں کو زہر دلوا دیا ہے، اس بات کی پاداش میں، کہ مرزا جواں بخت بہادر کو ولی عہدی سے محروم انہوں نے رکھا۔ بادشاہ کی طرف سے اس افواہ کی بار بار تردید بھی ہوئی، لیکن جب صاحب ریذیڈنٹ و کمشنر بہادر خود فرماتے تھے کہ میں مسموم ہوں تو کسی کے انکار سے کیا بنتا۔
ٹامس مٹکاف نے حکم دیا کہ دلی کی زہر بھری گرد آلود ہوا میں اچھا نہیں ہو سکتا۔ مجھے پہاڑوں پر لے چلو، دلی سے دور زہر خورانیوں کا بھی موقع نہ ہوگا۔ حسب الحکم صاحب کلاں بہادر، مٹکاف اور ریذیڈنٹی کا بہت سارا عملہ پالکیوں، بہلیوں اور رتھوں پر لاد کر شملہ پہاڑ لے جایا گیا۔ دلی سے انبالہ تک شیر شاہی سڑک تھی اور اچھی حالت میں تھی۔ لیکن اس کے بعد جلد ہی ہچکولوں اور دھچکوں سے بھرا پہاڑی رستہ تھا جس کے خم و پیچ اور سخت چڑھائیوں کے باعث سفر اور بھی تکلیف دہ تھا۔ آگے آگے دوڑنے والے ہرکاروں نے واپس آ کر خبر دی کہ پہاڑ کی اونچائیوں پر گھنے جنگلوں، برف باری اور پہاڑ کے ٹوٹ کر گرنے کے سبب راستہ اگر ناقابل عبور نہیں تو دشوار گزار بے شک ہے۔ مٹکاف کی بیوی، جو خود پیٹ کے عارضے میں مبتلا تھی، ان مخدوش حالات میں آگے سفر کرنے اور اپنے شوہر کی حالت میں مزید زبونی کا جوکھم لینے کو تیار نہ ہوئی۔ لہٰذا سارا قافلہ الٹے پائوں دلی واپس آنے پر مجبور ہو گیا۔ اکتوبر کے اواخر میں دونوں زار و نزار دارالخلافہ شاہجہان آباد واپس پہنچے۔ مٹکاف یہ کہتا گیا کہ مجھے زہر دیا گیا ہے۔ اس کا وزن گھٹتا گیا اور بدن میں رطوبت کم ہوتی گئی۔
بالآخر مرزا فخرو کے حق میں اعلان ولی عہدی کے چودہ مہینے بعد 3 نومبر 1853ء کو فدوی خاص و فرزند ارجمند سلطانی معظم الدولہ امین الملک اختصاص یار خان ٹامس تھیافلس مٹکاف صاحب بہادر فیروز جنگ ایجنٹ نواب گورنر جنرل بہادر مختار امور سر کار دولت مدار کمپنی انگریز بہادر و صاحب کمشنر بہادر مال و دائر سائر علاقہ دارالخلافہ شاہجہاں آباد نے جاں، جان آفریں کے سپرد کی۔ اگلے دن 4 نومبر کو سکندر صاحب کے گرجا گھر سے ملحق قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ یہ وہی قبرستان ہے، جہاں اٹھارہ سال قبل ولیم فریزر صاحب کو بھی سپرد خاک کیا گیا تھا۔
کچھ مدت بعد صاحب کلاں بہادر کی میم بھی بعارضہ شکم اس دار فنا سے اٹھ گئی۔ اس بار تو صاحبان انگریز نے بھی شبہے کا اظہار کیا کہ مٹکاف میم صاحب کو زہر دیا گیا تھا۔ آستانہ عالی سے اس بار کوئی تردید نہ آئی کہ پچھلی تردید کے باوجود نواب زینت محل کے بارے میں الزامی افواہیں اڑتی رہی تھیں۔ بعض انگریز حلقوں میں اب بھی یہی مشہور ہے کہ مٹکاف اور اس کی میم دونوں کی موت زہر خورانی سے ہوئی اور ملکہ دوراں کا ہاتھ دونوں اموات میں تھا۔ بہر حال، نواب گورنر جنرل بہادر کے عتبہ عالیہ سے اس بابت کوئی جانچ نہیں ہوئی اور نہ ہی کمپنی انگریز بہار کے کاغذات میں اس معاملے پر کچھ اظہار خیال ملتا ہے۔
نیا انگریزی سال طلوع ہوا۔ اہل قلعہ، بالخصوص بادشاہ سلامت قدر قدرت، ولی عہد مرزا فتح الملک بہادر اور وزیر خانم نے امید اور دعا کی کہ اب جو دن باقی ہیں وہ امن و امان سے گزریں۔ لیکن سال ختم ہوتے ہوتے 16 نومبر 1854ء کو سلطان الشعرا خاقانی ہند شیخ محمد ابراہیم خان ذوق استاد شہ نے دارالقرار میں قرار کیا۔ حکیم مومن خان مومن پہلے ہی حکیم علیٰ الاطلاق کے دربار میں پہنچ چکے تھے (14 مئی 1852)۔ اب شہر دہلی میں مرزا اسد اللہ خان غالب ہی استادوں کی نشانی اور بستان شعر فارسی اور ریختہ کے بلبل ہزار داستاں اور غالب علیٰ کل شعرا رہ گئے تھے۔ ظل سبحانی نے مرزا صاحب کو طلب کر کے اپنا استاد مقرر کیا اور نجم الدولہ دبیر الملک کے خطابات عطا کئے۔
آستانہ خلافت سے درجہ استادی حضرت غالب کو تفویض ہونے کے بعد مرزا فتح الملک شاہ بہادر ولی عہد سلطنت المتخلص بہ رمز نے بھی ان کی شاگردی اختیار کر لی۔ لیکن باوجود اس کے کہ مرزا صاحب کی نگاہ مہر و قدر داغ پر پڑتی تھی۔ داغ نے مرزا غالب کا شاگرد بن جانے کا کوئی ارادہ نہ کیا۔ شاید اسے یہ خیال رہا ہو کہ شیخ ذوق نے اسے کامل کر ہی دیا تھا، یا اس نے پرانی باتیں یاد کی ہوں اور اپنی ماں کا لحاظ کیا ہو کہ میں اگر مرزا نوشہ کی شاگردی میں آئوں گا تو اماں جان کو رنج ہو سکتا ہے۔ بہر حال، یہ حقیقت ہے کہ شاگرد نہ بننے کے باوجود داغ کے مراسم مرزا نوشہ سے ہمیشہ بہت خوشگوار رہے اور دربار رامپور سے غالب کے تعلقات استوار رکھنے اور وہاں ان کے معاملات کی شنوائی ہونے میں داغ نے کار ہائے اہم انجام دیئے۔
چند ہی مہینے گزرے تھے کہ یکم اپریل 1855ء کو نواب سید محمد سعید خان بہادر فرمانروائے رامپور بعارضہ سل راہی جنت الفردوس ہوئے اور ولی عہد سلطنت نواب یوسف علی خان بہادر ناظم نے مسند سلطانی پر جلوہ فرمایا۔ نواب اور عمدہ خانم کے تعلقات کے پیش نظر کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ داغ کے لئے اب رامپور کو مستقر بنانا انسب ہوگا۔ لیکن داغ نے ماں کا سایہ اور میرزا فتح الملک شاہ بہادر کا دامن چھوڑنا پسند نہ کیا۔ وزیر بھی یہی چاہتی تھی۔ اسے امید تھی کہ خورشید مرزا کی طرح نواب مرزا اور اس کی دلہن بھی دلی کے دارالامان و دارالعزت میں رہیں اور پھلیں پھولیں۔ نواب مرزا کی اپنے سوتیلے بھائی مرزا ابو بکر بہادر سے اچھی بنتی تھی۔ ادھر مرزا خورشید عالم بھی دس برس کا ہو رہا تھا اور شاہ محمد آغا کا پندرہواں برس تھا۔ یہ چاروں اخیافی یا علاتی بھائی تھے، لیکن ان میں اخلاص اور پیار سگے بھائیوں جیسا تھا۔ مرزا ابوبکر تو شعر نہ کہتے تھے لیکن شاہ محمد آغا کی طبیعت ابھی سے اہل دہلی کے فیض صحبت سے منجھنے لگی تھی۔ انہوں نے شائق تخلق اختیار کیا، مگر ریختہ سے زیادہ ان کا رجحان فارسی کی طرف تھا۔ شاید یہ باپ کا اثر رہا ہو۔ مرزا خورشید عالم بھی شاعر ہونے کے شوق میں اپنا تخلص خورشید رکھ کر ایک دو مصرعے موزوں کرنے لگ گئے تھے۔ ولی عہد بہادر فرمایا کرتے کہ وزیر خانم یہ تمہارا اثر ہے، جو نواب مرزا اور شاہ محمد آغا اور خورشید مرزا شاعر ہیں۔ ورنہ اکیلے میرے کئے سے تو کوئی اولاد شاعر نہ بن سکی۔ وزیر جواب دیتی کہ ولی عہد بہادر، اللہ آپ کو سلامت با کرامت رکھے، شاعر تو بہتیرے ہو جائیں گے۔ لیکن مرزا فتح الملک شاہ بہادر کبھی کبھی سوچتے کہ کاش میں غلام فخر الدین ہی رہتا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment