حضرت مرطوش کا عرس ربیع الاول میں کرایا جاتا ہے

تیسری و آخری قسط
احمد خلیل جازم
حضرت مرطوشؑ کے عرس مبارک کے بارے وہاں موجود مدرسے کے مہتمم قاری محمد ارشد کا کہنا تھا کہ ’’آپ کا عرس مبارک ربیع اول کے مہینے میںہوتا ہے۔ چونکہ یہ مہینہ مسلمانوں کیلئے ویسے ہی بہت مقدس ہے کہ اس ماہ مبارکہ میں آنحضورؐ دنیا پر تشریف لائے تھے۔ اسی لیے حضرت مرطوشؑ کا عرس بھی اسی ماہ مبارکہ میںمنعقد کیا جاتا ہے۔‘‘ اس سوال کہ کیا عرس کے بارے میں صاحب مزار کے احکامات کسی کو ملے تھے؟ تو قاری ارشد کا دعویٰ تھا کہ ’’دراصل یہ اتنے قدیم بزرگ ہیں کہ ان کی اصل تاریخ پیدائش ملنا ناممکن ہے۔ کشف القبور کے ماہرین نے ان سے جو معلومات حاصل کی ہیں، ان کے مطابق ہی عرس منعقد کیا جاتا ہے۔ یقیناً اس حوالے سے انہوں نے کوئی نہ کوئی حکم جاری کیا ہوگا۔ تب یہ عرس ربیع اول کے ماہ مبارکہ میں ہوتا ہے، بعض لوگ ہاڑ کے مہینے کو عرس مبارک منعقد کرنا صائب جانتے ہیں۔ لیکن اصل میں آپ کا عرس مبارک ربیع اول کے مہینے میں ہی ہوتا ہے۔‘‘ قاری ارشد کا مزید دعویٰ تھا کہ ’’ہم انؑ کی اجازت کے بغیر کوئی ایسی بات نہیں کرسکتے جو انہیں ناگوار گزرے، بہت سارے لوگ آتے ہیں اور بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔‘‘ قاری ارشد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’قبر مبارکہ قریباً سو برس قبل دریافت کی گئی تھی اور مزار کی تعمیر کو چالیس برس سے زائد ہوگئے ہیں۔ قبر مبارکہ کا نشان حافظ شمس الدین نے ظاہر کیا لیکن اصل قبر بعد میں دریافت کی گئی، یہ سائیں نورالدین کو اشارہ ملا تھا کہ اس جگہ کو کھودا جائے، چنانچہ انہوں نے مزار کھودا اور پھر نیچے سے قبر ظاہر ہوئی۔‘‘ اسی دوران ایک نوے سالہ بزرگ بھی ہماری گفتگو میں شریک ہوگئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’’میں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب یہاں جنگل بیابان تھا۔ طرح طرح کے جانور یہاں پائے جاتے تھے۔ صاحب مزار کی جگہ ایک اونچی ڈھیری تھی، موٹا چونکہ خالص مسلمانوں کا قصبہ تھا، قیام پاکستان سے پہلے اس علاقے میں ہندو اور سکھ بھی تھے۔ لیکن اس قصبے میں کم تھے، ہندو اکثر کہاروں کا کام کرتے تھے، وہ بھی اس قبر پر آکر زیارت کرتے اور مرادیں مانگتے تھے۔ ایک ہندو مائی جس کا نام مکھنی تھا، اس نے قبر کی بہت خدمت کی۔ وہ موٹا گائوں کی رہنے والی تھی، وہ روزانہ صبح سر پر پانی کا گھڑا رکھ کر آتی اور قبر کے پاس دھر دیتی تھی۔ اسی وجہ سے اسے بہت فیض حاصل ہوا۔ لوگ اس کی بہت عزت کرتے تھے، اس کے علاوہ یہاں سکھ بھی کافی تعداد میں آتے تھے۔ ہر جمعرات کو مسلمانوں کے ہمراہ سکھ اور ہندو حاضری کو یقینی بناتے تھے اور پورا گائوں اس قبر پر امڈ آتا۔‘‘ اس بات سے یہ تو وضاحت ہوگئی کہ قبرکی سو سوا سو برس قبل صرف نشان دہی کی گئی تھی۔ جبکہ اس تک رسائی دوبارہ کھدائی کے دوران ہوئی۔ یہ بہت حیران کن بات تھی کہ نشان دہی پہلے کر دی گئی لیکن قبر ظاہر نہ ہوئی ، کیسے کامل ولی تھے جنہوں نے سو برس قبل صرف جگہ کی نشان دہی کردی تھی، لیکن قبر سامنے نہ آسکی؟ لیکن اس نشان دہی کے کم و بیش ساٹھ برس بعد پھر کھدائی کی گئی اور قبر کا ظہور ہوا۔ اس سے اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ان قدیم قصبات کے وجود میں آنے سے قبل یہاں انسانی آبادی پائی جاتی تھی، جانے اس سرزمین کے نیچے مزید کیا کچھ موجود ہوگا اور کون لوگ ہوں گے جو یہاں دفن ہوں گے۔ ذہن پھر اس جانب جاتا ہے کہ انگریز دور میں ہاں کھدائی کے دوران بڑی کھوپڑیاں اور بڑی بڑی پنڈلیوں کی ہڈیاں ملیں۔ شیخ کرامت اللہ لکھتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر ابوبکر شعبہ زوالوجی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ گجرات کی پبی کی پہاڑیوں میں میں نے بھی کام کیا ہے۔ وہاں سے ہاتھی، دریائی بھینسے اور گائے وغیرہ کے پنجر ملتے ہیں۔‘‘ یعنی ایک وقت ایسا بھی تھا کہ یہاں بڑا جنگل اور بڑے دریا بہتے تھے۔ جن بڑی ہڈیوں کے بارے میں کتب میں تحریر ہے اس حوالے سے ہم انہی سطور میں پہلے بیان کرچکے ہیں کہ انگریز نے انہیں دیو اور راکھشش سے تعبیر کیا تھا۔ بہرحال ان باتوں میں کتنی حقیقت ہے یہ تو رب کائنات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ، تاریخ دان صرف مفروضوں اور چیزوں کی جانچ پڑتال سے عہد کا تعین اور انسانی ارتقاء کا بیان کرتے ہیں۔ حضرت مرطوشؑ کے مزار کی جانب آئیں تو اس قبر مبارکہ کی دریافت تاریخ کے تمام اوراق کو تلپٹ کردیتی ہے کہ ایک شخص نے سوبرس قبل نشان دی کی اور ساٹھ برس بعد وہاں سے قبر نمودار ہوئی، ان رازوں سے تاریخ دان پردہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔
قاری ارشد کا کہنا تھا کہ ’’یہاں مدرسہ کا انتظام بہت اچھا ہے ۔ یہ جو بڑی مسجد ہے، اس چھوٹی مسجد کے ہی تسلسل میں بنائی گئی ہے۔‘‘ ہم نے مزار سے متصل چھوٹی سی مسجد دیکھی جو اپنی قدیم روایت کو سنبھالے کھڑی تھی، مسجد کا رقبہ بہت کم تھا۔ چھوٹا سا صحن تھا اور ایک کمرہ جس کا بیرونی دروازہ قدیم تھا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے چار مینار تھے۔ چھت اور دیواریں اگرچہ خستہ حال تھے، لیکن مضبوط اور پائیدار دکھائی دیتے تھے۔ کمرے کا دروازہ دو کواڑوں پر مشتمل تھا، جس کے باہر پرانے دور کی کنڈی لگی ہوئی تھی جو آج کل شہر تو شہر قصبات میں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ مسجد بھی پیر نصیب شاہ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ احسان فیصل کا بتانا تھا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’حافظ شمس الدین نے اسی جگہ عبادات کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اس وقت سے یہ جگہ مسجد کے لیے وقف ہے۔‘‘ مزار اور مسجد ساتھ ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ مزار کے دروازے کے سامنے ایک لوہے کا اسٹینڈ رکھا ہوا تھا، جس پر خالی چراغ اور مٹی کی چھوٹی چھوٹی ہانڈیاں رکھی گئی تھیں۔ ان ہانڈیوں کے ساتھ جو خاص چیز تھی وہ چھوٹے چھوٹے مٹی کے تنور تھے۔ اس کے بارے مقامی افراد کا کہنا تھا کہ ’’یہاں لوگ اپنے اپنے مسائل اور مرادوں کیلئے آتے ہیں، کچھ لوگوں کو رزق کی مسائل ہوتے ہیں، جس وجہ سے ہانڈیاں اور تنور رکھے جاتے ہیں۔ یہاں کثیر تعداد عورتوں کی آتی ہے جو دیئے جلا کر اپنے من کی مرادیں مانگتی ہیں۔ صاحب مزار کسی کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتے ، شرط یہ ہے کہ آپ کی مراد جائز ہو۔‘‘
مزار سے متصل مدرسے میں دور دور سے طالب علم درس و تدریس کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔ قاری ارشد نے بتایا کہ ان میں زیادہ تر تعداد ان بچوں کی ہے جو قرآن کریم حفظ کرنے کیلئے آئے ہیں۔ یہاں لنگر کا انتظام تین وقت کیا جاتا ہے جس میں دال روٹی سمیت حلوے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے، جس وقت ہم مدرسے میں داخل ہوئے لنگر کا وقت تھا اور تمام بچے لنگر کھا رہے تھے ۔ ان تمام بچوں کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ اس پر قاری ارشد کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے خوراک کاا نتظام ہوتا ہے ، یہاں جو بچے آتے ہیں ان کے لیے بندوبست بھی اللہ پاک خود ہی فرماتے ہیں۔ لیکن ایک بات میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، مزار سے مل جاتی ہے ، مثلاً آٹا ختم ہوگیا ہے تو آپ مزار میں داخل ہوں آپ کو آٹے کے توڑے مل جائیں گے۔ دال چاہیے تو دال بھی وافر مل جائے گی، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کوئی اورمخلوق رکھ جاتی ہے ، انسان ہی ہیںجو آتے ہیں اور رکھ جاتے ہیں، ان کے دل میں کون یہ بات ڈالتا ہے البتہ یہ بات سوچنے والی ہے۔ ہم نے کبھی کسی کو بطور خاص کچھ لاتے ہوئے نہیں دیکھا کہ وہ آکر کہے کہ ٹریکٹر ٹرالی آئی ہوئی ہے گندم اتروا لیں ، کچھ لوگ رات کو آتے ہیں اپنے ساتھ کچھ لے آتے ہیں اور کوئی دن میں آتا ہے ، تو گلے میں پیسے ڈال جاتا ہے ، اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ ان بچوں کے سال بھر کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں۔‘‘ ہم نے قاری ارشد سے اجازت چاہی۔ واپسی پر ایک بزرگ خاتون مزار کی جانب چلی جارہی تھیں انہیں روک کر پوچھا کہ مائی صاحبہ آپ کب سے یہاں آرہی ہیں؟ تو اس کا کہنا تھا کہ ’’میں بچپن سے یہاں حاضری د ے رہی ہوں، میں تو اس در کی فقیرنی ہوں، میرے ہاں اولاد نہیں ہورہی تھی، یہیں دعا کرنے سے اللہ نے مجھے اولاد کی دولت سے نواز ، پھر ان کے روزگار نہیں تھے۔ اب صاحب مزار کی بدولت سارے بچے برسر روزگار ہیں۔ میں روز یہاں حاضری دیتی ہوں اگرچہ اب قویٰ مضبوط نہیں رہے لیکن جب تک سانس ہے یہاں آنا جانا جاری رہے گا۔‘‘
حضرت مرطوشؑ کا مزار اب بھی قصبے سے باہر ہے اور اس کے اردگر گھر نہیں ہیں، صرف مزار ، مسجد اور مدرسہ ہے ۔ لیکن یہاں ہر وقت لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ۔ لوگ مرادیں مانگتے ہیں اور پوری ہونے پر اظہار تشکر کے طور پر دیگیں اور لنگر تقسیم کرتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان قبور کی تاریخ میں کوئی حقیقت نہیں۔ اصل حقیقت کیا ہے، واقعی کسی کو معلوم نہیں۔ واللہ اعلم باالصواب۔

Comments (0)
Add Comment