امت رپورٹ
وزیراعظم عمران خان کی ہفتے کے روز ہونے والی تقریر قانونی مشکلات کے پیش نظر نشر نہیں کی گئی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے کئی انکشافات کئے اور کرپشن میں ملوث بڑے سیاستدانوں کے نام بھی لئے تھے۔ اس تقریر کی ریکارڈنگ سننے کے بعد پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے مشورہ دیا کہ وزیراعظم کو اس تقریر کے نشر ہونے کے بعد قانونی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ کیونکہ کرپشن کیخلاف کارروائی حکومت کا نہیں نیب کا کام ہے۔ اس تقریر سے نیب کی غیر جانبداری متاثر ہوتی تھی۔ دوسری جانب اس ایشو کو اپوزیشن جماعتیں سیاسی انتقام قرار دے کر وزیر اعظم کیلئے مشکلات کھڑی کردیتی۔ جبکہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیان پر سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب یہ تبصرہ کرچکی ہیں کہ وہ حکومت کے ترجمان ہیں یا نیب کے تر جمان ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طرف اپوزیشن نیب کے قانون کو کالا قانون کہہ رہی ہے تو دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نیب کی تمام کارروائیوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کیلئے تقریریں کررہے ہیں۔ حکومتی پارٹی کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ تقریر جو نشر نہیں ہوئی اس میں وزیراعظم ازخود یہ انکشاف کرنا چاہتے تھے کہ 10 ممالک سے 700 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے ان بڑی سیاسی شخصیات کے نام بھی تقریر میں لے دیئے تھے، جس سے بہت سی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ اس لئے اب یہ انکشاف وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کیا ہے کہ پاکستان سے باہر جانے والی رقم 700 ارب روپے سے بہت زیادہ ہے اور اس میں سوئس جائیدادیں شامل نہیں۔ سوئس حکومت اور برٹش ورجن آئی لینڈ سے تفصیلات ملنے کے بعد یہ رقم بہت بڑھ جائے گی۔ شہزاد اکبر نے بتایا کہ منی لانڈرنگ اور مختلف غیر قانونی طریقوں سے یہ پیسہ پاکستان سے باہر لے جایا گیا ہے، جس کے ذریعے باہر اثاثے اور جائیدادیں بنائی گئی ہیں۔ تمام بڑے مگرمچھوں کو نوٹس بھجوا دیئے ہیں اور کچھ ممالک میں ان کے پیسے بھی منجمد کرا دیئے ہیں۔ نوٹسز کے جوابات کے بعد باقاعدہ ریفرنس فائل کئے جائیں گے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ رکشے والے اور فالودے والے کے کیسز میں 5 ہزار جعلی بینک اکاؤنٹس ہیں، جن کے ذریعے بیرون ملک ایک ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کا پتا لگایا ہے۔ ایک شخص ان کے اکاؤنٹ میں پیسہ ڈال کر ٹی وی پر دندناتا ہے کہ مجھے ثابت کرکے دکھاؤ۔ دبئی لینڈ اتھارٹی کے مطابق وہاں رئیل اسٹیٹ میں سب سے زیادہ حصہ پاکستانیوں کا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر انصاف سے جلد ملاقات ہوگی۔ کوشش کررہے ہیں کہ یو اے ای حکومت کے ساتھ باہمی قانونی معاہدہ بھی ہو جائے۔ مشیر احتساب کا کہنا تھا کہ اقامہ کی آڑ میں منی لانڈرنگ کرنے والے اپنی تفصیلات چھپا لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے ملازمین کے نام پر پیسے رکھے ہوئے ہیں۔ بینک سسٹم میں اقامہ ہولڈر کا اسٹیٹس بدل جاتا ہے، جس سے ان کی تفصیلات منہا ہو جاتی ہیں۔ ایم کیو ایم کی منی لانڈرنگ کے معاملے میں بھی بھاری رقم ہے، جس پر جلد پیش رفت کا امکان ہے۔
ذرائع کے بقول تحریک انصاف کے سینئر رہنمائوں کا خیال ہے کہ وزیر اطلاعات یا وزیراعظم کو ان معاملات پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جبکہ وزیراعظم کے مشیر احتساب بیرسٹر شہزاد اکبرکے بیانات پر بھی سینئر رہنما تحفظات رکھتے ہیں کہ ان کو بھی اس حوالے سے خاموش رہنا چاہئے۔ کیونکہ یہ کام نیب، ایف آئی اے اور عدالتوں کا ہے کہ وہ کرپشن کی تحقیقات کریں۔ سیاسی حکومت کو اس معاملے میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے۔ ذرائع کے بقول وزیراعظم کی خواہش ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کرپٹ قرار دیکر ناک آئوٹ کردیں۔ دوسری جانب نیب لاہور کے ڈی جی کا انٹرویو بھی چیئرمین نیب کیلئے نئی مشکلات کھڑی کرگیا اور انہیں خود اس کی وضاحت کے لئے سامنے آنا پڑا ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نے ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کا تمام ریکارڈ پیمرا سے طلب کرلیا ہے۔ چیئرمین نیب نے اپنے جاری بیان میں کہا ہے کہ نیب تمام اراکین اسمبلی کا احترام کرتا ہے۔ جبکہ ریکارڈ اس لئے طلب کیا گیا ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ کیا نجی ٹی وی سے گفتگو میں حقائق کے برعکس کوئی بات کی گئی اور نیب لاہور کے سربراہ کی گفتگو سے معزز اراکین اسمبلی کا استحقاق مجروح ہوا تو کس طرح ہوا۔ ذرائع کے بقول ڈی جی نیب کے انٹرویو کے بعد سیاست دانوں کو موقع مل گیا کہ وہ نیب مقدمات کو اپنے خلاف سیاسی انتقام قرار دے سکیں۔ پیر کے روز ہی خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق نے ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور کے خلاف چیئرمین نیب کو درخواست دیدی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ڈی جی نیب نے ٹاک شو میں انہیں ملزم ثابت کرنے کی کوشش کی اور میڈیا پر ہمارے خلاف انکوائری کا ذکر کیا۔ ڈی جی نیب ہمارے خلاف پارٹی بن چکے ہیں، اس لیے نہیں لگتا کہ ان کیخلاف انکوائری غیر جانبدار ہوگی۔ خواجہ سعد رفیق نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب لاہور سے تفتیش کسی غیر جانبدار بیورو کو منتقل کی جائے۔ دوسری جانب اپوزیشن نے ڈی جی نیب لاہور کے انٹرویو پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک استحقاق جمع کرا دی ہے۔ واضح رہے کہ نیب لاہور کے سربراہ شہزاد سلیم نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں شہباز شریف کے خلاف نیب کیسز پر بات کی تھی۔ ذرائع کے مطابق اب اگر وزیراعظم کوئی بیان دیتے ہیں تو اپوزیشن اس بیان کو بنیاد بنا کر ان کی نااہلی کیلئے ریفرنس دائر کرسکتی ہے کہ وزیراعظم نیب کی جانب سے اپنے سامنے پیش کئے گئے معاملات کو پبلک کررہے ہیں، جوکہ ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ سیاست دان حکومت کیخلاف سیاسی انتقام کا پروپیگنڈا کرتے جس کو سنبھالنا تحریک انصاف کی حکومت کیلئے مشکل ہوجاتا۔