حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

سید ارتضی علی کرمانی
حضرت صاحبؒ کے وصال پر تقریباً تمام ہم عصر مشائخ کرام نے اظہار تعزیت فرمایا۔ حضرت سید احمد عطاس صاحب مدنی، سجادہ نشینان وصاحبزادگان دربار ہائے پاک پتن، تونسہ شریف، سیال شریف، بسال شریف، میرا شریف اور دربار حضرت موسیٰ پاک شہید و غوث بہاؤ الحق صاحب ملتان، حضرت خواجہ حسن نظامی دہلوی، پیر سید جماعت علی شاہ و حافظ جماعت علی شاہ علی پوری اور متعدد دیگر حضرات بنفیس نفیس تشریف لائے اور فاتحہ پڑھی۔
تعزیت ناموں کے انبار لگ گئے اور بر صغیر کے اخبارات ور سائل نے تعزیتی مقالات شائع کئے۔ چونکہ ان تاثرت کی طرف توجہ بہت دیر سے کی گئی اس لئے بہت کم رسائل اور اخبارات کے اندراج محفوظ کئے گئے۔ جبکہ آج تک حضرت صاحب پر پاکستان کے اخبارات اور رسائل خصوصی نمبرز گاہے بگاہے شائع کرتے رہتے ہیں۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
روزمانہ زمیندار۔ لاہور۔ 14 مئی 1937ء
حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ مسند آرائے گولڑا شریف مرحوم کے عقیدت کیشوں کو تعداد لاکھوں تک ہے۔ آپ ان مشائخ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ جو صاحب بصیرت و حقیقت ہونے کے علاوہ علوم ظاہری میں بھی فاصل باکمال تھے۔ ہم اس حادثہ جانکاہ کا سلسلہ چشتیہ کے لئے ناقابل تلافی صدمہ سمجھتے ہیں۔
روزنامہ سیاست 21 مئی 1937ء
مولانا بہائوالحق قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مرشدی نوراللہ مرقدہ دور حاضر کے اکابر علما اور صلحاء میں سے تھے۔ یوں تو آپ کو اکثر عقلیہ و نقلیہ میں تبحر حاصل تھا، لیکن علم تصوف کے ساتھ خاص شغف اور طبعی لگائو تھا۔ بڑے بڑے علما اور صوفیا تصوف کے دقائق و غوامض کو حل کرانے تصوف کی دقیق کتابوں کو درساً پڑھنے کی غرض سے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ تدبر، وقار اور حکام سے استغنا آپ کے خاص اوصاف تھے۔ مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی اور تکفیر سے حتی الوسع احتراز فرماتے تھے۔ البتہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تکفیر کے باب میں علما اسلام کے ہم نوا تھے، بلکہ مرزا کی زندگی میں اس کے خلاف کلمۂ حق کہنے والے بزرگوں میں حضرت پیر صاحب قدس سرہ کو خاص درجہ حاصل ہے۔ اس کے خلاف بعض لاجواب فاضلانہ اور کفر شکن تصنیفات آپؒ کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ غرض حضرتؒ کا وجود گرامی اس قحط الرجال میں مغنمات روزگار سے تھا۔
روزنامہ پیسہ اخبار۔ 14 مئی 1937ء
لاکھوں بندگان خدا کو آپ کی ذات سے عقیدت کا فخر حاصل تھا۔ اس زمانہ کفر و الحاد میں آپؒ کا وجود متمنمات سے تھا۔ کیونکہ اس چشمۂ فیض سے ہزاروں لاکھوں ارادت مندوں کو فیضان اور جسمانی برکات حاصل ہوئیں۔ آپ کا آستانہ عالیہ منبع فیوض تھا۔ دینیات کی تعلیم کا بھی انتظام موجود تھا، لنگر بھی جاری تھا، آپ کی ذات کے طفیل گولڑہ جیسے معمولی گائوں کو پورے ہندوستان میں شہرت حاصل ہوئی۔ آپ کی وفات حسرت آیات سے طبقۂ صوفیا اور طبقہ علما دونوں کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچا ہے۔ عالم دین کی موت ایک جہان کی موت کا حکم رکھتی ہے۔ گو لڑہ کی سرزمین آج ایک باعمل درویش کامل اور صوفی بزرگ کے ساتھ عاطفت سے محروم ہو گئی ہے، ایسے باکمال حضرات ہمیشہ پیدا نہیں ہوئے۔
روزنامہ وحدت۔ دہلی۔ 26 مئی 1937ء
حضرت مرحوم کی ذات گرامی منبع فیوض و کرم ہونے کے سبب اس زمانہ قحط الرجال میں مسلمانوں کیلئے موجب خیر و برکت تھی۔ اس لیے روہیل کھنڈ علما پولیٹیکل کانفرنس کا یہ اجلاس آپ کے انتقال پرملال کو ایک ناقابل تلافی قومی و مذہبی نقصان سمجھتا ہے۔
روزنامہ ’’معین‘‘ اجمیر شریف۔ 14 مئی 1937ءموت العالم موت العالم۔
حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ جیسے شیخ کامل اور عالم باعمل کی رحلت عالم اسلامی کیلئے ناقابل صدمہ ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ سرزمین ہٰذا میں اب ایسی جامع برکات اور بزرگ شخصیتیں پیدا نہیں ہوئیں کہ ایک طرف علوم اسلامی میں متبحرانہ و مجتہدانہ شان نظر آئے اور دوسری طرف فیوض و برکات باطنی مدارج و مراتب روحانی میں عرفائے کاملین کا نمونہ ہو۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment