حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص بازار میں غلام خریدنے گیا۔ اسے ایک غلام پسند آ گیا، بیچنے والے نے کہا کہ اس غلام میں کوئی عیب نہیں ہے، بس یہ ہے کہ اس میں چغلی کی عادت ہے۔ خریدار راضی ہو گیا اور غلام خرید کر گھر لے آیا۔
ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ غلام کی چغل خوری کی عادت نے یہ گل کھلانا شروع کیا کہ اس نے اس شخص کی بیوی سے تنہائی میں جا کر کہا کہ تمہارا شوہر تمہیں پسند نہیں کرتا اور اب اس کا ارادہ باندی رکھنے کا ہے۔ لہٰذا رات کو جب وہ سونے آئے تو استرے سے اس کے کچھ بال کاٹ کر مجھے دے دو تاکہ میں اس پر عملِ سحر کرا کر تم دونوں میں دوبارہ محبت کا انتظام کر سکوں۔
بیوی اس پر تیار ہو گئی اور اس نے استرے کا انتظام کر دیا۔ ادھر غلام نے اپنے آقا کے پاس جاکر یوں بات بنائی کہ تمہاری بیوی نے کسی غیر مرد سے تعلقات قائم کر لیے ہیں اور اب وہ تمہیں راستہ سے ہٹا دینا چاہتی ہے۔ اس لیے ہوشیار رہنا … رات کو جب وہ بیوی کے پاس گیا تو دیکھا کہ بیوی استرا لا رہی ہے۔ وہ سمجھ گیا کہ غلام نے جو خبر دی تھی، وہ سچی تھی۔ اس لیے قبل اس کے کہ بیوی کچھ کہتی، اس نے اسی استرے سے بیوی کا کام تمام کر دیا۔ جب بیوی کے گھر والوں کو اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے آ کر شوہر کو قتل کر دیا۔ اس طرح اچھے خاصے خاندانوں میں خونریزی کی نوبت آ گئی۔ (احیاء العلوم 90/3)
الغرض چغلی ایسی بری بیماری ہے، جس سے معاشرہ فساد کی آماجگاہ بن جاتا ہے، اسی لیے حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خود رسول اقدسؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’چغل خور آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
انبیاءؑ کا شیوہ
انبیاء علیہم السلام کا شیوہ یہ رہا ہے کہ کبھی گالی کا جواب بھی گالی سے نہیںدیا۔ حالانکہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہے کہ جتنا ظلم تم پر کیا جائے، تم بھی اتنا بدلہ لے سکتے ہو۔ لیکن انبیاء علیہم السلام نے کبھی گالی کا بدلہ گالی سے نہیں دیا۔ قوم کی طرف سے نبی کو کہا جارہا ہے کہ:
’’تم بیوقوف ہو، حماقت میں مبتلا ہو اور ہمارا خیال یہ ہے کہ تم جھوٹے ہو۔‘‘
ہم جیسا کوئی ہوتا تو جواب میںکہتا کہ تم احمق اور تمہارا باپ احمق، لیکن نبی کا جواب یہ تھا کہ:
’’اے میری قوم، میں بیوقوف نہیں ہوں، بلکہ میں پرودگار کی طرف سے رسول بنا کرر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
حق تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔ آمین یارب العٰلمین۔
٭٭٭٭٭