اطراف ہند سے انگریز بہادر کی چیرہ دستیوں کی خبریں آتی رہتی تھیں۔ 1856ء کا سال شروع ہوتے ہوتے سب سے بڑا سانحہ انتزاع سلطنت اودھ کا تھا۔ 7 فروری 1856ء کو انگریز فوجیں لکھنئو میں داخل ہو گئیں۔ بادشاہ کو مسلح محافظوں کے گھیرے میں اور بڑی ایذا کے ساتھ پہلے الٰہ آباد ، پھر کلکتہ لے جایا گیا۔ معزول بادشاہ نے اپنی مثنوی ’’حزب اختر‘‘ میں اپنا حال لکھا اور اودھ کے خلاف صاحبان فرنگی کی رپورٹ موسومہ بہ ’’بلو بک‘‘ (Blue Book) کا جواب بھی بزبان فارسی، ہندی و انگریزی لکھوا کر شائع کرایا۔ لیکن دہلی کی ولی عہدی اور شاہی کی طرح یہاں بھی فیصلے پہلے ہی ہو چکے تھے، تقدیریں پہلے ہی لکھی جا چکی تھیں۔
دہلی میں اس واقعے کی گونج دیر تک سنی گئی۔ ظل اللہ کو بھی سخت تشویش تھی۔ ہرچند کہ انگریز نے دلی کے علی الرغم اودھ کو خود مختار سلطنت تسلیم کر لیا تھا لیکن قلعے والے، بلکہ تمام دلی والے بھی یہی گمان کرتے تھے کہ اودھ کو ہم سے بجبر نہیں تو بہ سیاست الگ کیا گیا ہے۔ بادشاہ کے متعدد اقارب لکھنئو میں قیام پذیر تھے اور ان کی تنخواہیں ماہ بماہ قلعے سے جاتی تھیں۔ مرزا سلیمان شکوہ بہادر کی نسل تو اب کرنیل گارڈنر صاحب کی نسل میں ضم ہو کر محو ہو گئی تھی، لیکن مرزا جہانگیر بخت (ابن اکبر شاہ ثانی عرش آرام گاہ) کے اخلاف الٰہ آباد اور مرزا جہاندار شاہ (ابن شاہ عالم ثانی فردوس منزل) کے اخلاف بنارس میں موجود تھے۔ لہٰذا سیاسی اور خاندانی دونوں پہلوئوں سے سلطنت اودھ کا انگریز کے ہاتھ میں چلا جانا حضرت رعیت پناہی کے لئے صدمے کا باعث تھا۔ کہا گیا ہے کہ حضرت خلافت مآب نے یہ شعر سلطان شہید کے پردے میں بادشاہ واجد علی شاہ پر بھی فرمایا تھا۔
اعتبار صبر و طاقت خاک میں رکھوں ظفر
فوج ہندوستان نے کب ساتھ ٹیپو کا دیا
چونکہ دکن کے علاقے کو عموماً ’’ہندوستان‘‘ نہ کہتے تھے، اس لئے اس شعر میں ظل الٰہی نے لفظ ’’ہندوستان‘‘ صرف کر کے ایک بسیط تر حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ شہر دہلی میں اودھ کے سقوط کی خبر نے کیا کیفیت پیدا کی، اس کا کچھ اندازہ مرزا غالب کے ایک خط سے ہو سکتا ہے۔ قدر بلگرامی کو غالب صاحب نے 23 فروری 1856ء کو لکھا:
’’تباہی ریاست اودھ نے، باآنکہ بیگانہ محض ہوں، مجھ کو بھی افسردہ دل کر دیا۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ سخت ناانصاف ہیں وہ اہل ہند جو افسردہ دل نہ ہوئے ہوں گے۔ اللہ ہی اللہ ہے‘‘۔
اس سال دلی میں گرمیاں بہت سخت تھیں۔ دلی میں لوئیں کبھی نہ چلتی تھیں لیکن اس سال خدا جانے کس طرح پچھوا ہوائوں کا تانڈو ناچ راجپوتانے کے آگے کے جنگل اور پہاڑیاں عبور کر کے شہر کے کوچہ و برزن میں آ گیا۔ علی پور سے لے کر دلی دروازے تک روز ہی ہر محلے میں کئی کئی بچے اور مزدور پیشہ یا دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والی عورتیں لوئوں کا شکار ہو کر شدید تپ اور ہتھیلیوں اور تلوئوں کی جلن سے جھلس جھلس کر اس عالم میں موت کی آغوش میں چلی گئیں کہ پیاس سے برا حال تھا، لیکن ٹھنڈا پانی یا کوئی بھی ٹھنڈائی پینے سے جسم میں دوں اور بھی بھڑک اٹھتی۔ پھر جون کے وسط میں بارش آ گئی اور اس قدر کہ چند دنوں میں جمنا کا پانی سلطان جی نظام الدین صاحب کی درگاہ اور ہمایوں کے مقبرے کے سامنے لہریں مار کر گویا خشکی کا منہ چڑانے لگا۔ پھر جو کس کے دھوپ نکلی ہے تو سینکڑوں کچے اور کمزور مکان ڈھہ گئے اور جو بچ نکلے، ان میں سے بہتوں کی دیوار شق ہوئی یا چوکھٹ بیٹھ گئی یا چھت ٹپکنے لگی۔ ایسے میں بارش پھر سے جاری ہوئی اور پانی نے ملبے اور خاشاک اور لکڑی کے زمیں بوس شہتیروں کو گلا کر سڑاند پیدا کر دی۔ پھر ہیضہ پھیل گیا۔
کمپنی انگریز بہادر کے اہلکار حسب استطاعت شہر چھوڑ کر محفوظ مقامات کو بھاگنے لگے، غربا کے لئے دوا دارو کا بندوبست کون کرتا؟ شہر کے حکیموں بیدوں سے کچھ بن پڑا کچھ نہ بن پڑا، لیکن کوڑے کے سڑتے ہوئے ڈھیروں کو کون اٹھاتا اور جگہ جگہ رکی ہوئی نالیوں اور سنڈاسوں کو کون صاف کرتا؟ شاہجہاں آباد تو اونچائی پر تھا اور شاہی وقتوں سے وہاں پانی کے نکاس کا انتظام بہت اچھا تھا، لیکن بقیہ علاقوں کی یہ کیفیت نہ تھی۔
جولائی 1856ء کی نو تاریخ تھی جب صاحب عالم و عالمیان، مرشد زادۂ جہانیان، مرزا فتح الملک شاہ بہادر کا مزاج صبح صبح کچھ ناساز ہوا۔ ہلکی تپ کے ساتھ امتلا کی شکایت کے ساتھ کچھ پیٹ کے خالی خالی لگنے کا احساس ہوا، گویا بہت دیر سے کچھ کھایا نہ ہو۔ حکیم محمد نقی خان معالج خاص کو طلب کیا گیا۔ وہ آئے اور انہوں نے مریض کی نقاہت اور اشتہا کے مد نظر صفراوی کیفیت تشخیص کی۔ ان کے مشورے پر مریض کو کچھ کھانا کھلایا گیا اور یخنی پلائی گئی۔ غذا پیٹ میں جاتے ہی استفراغ کی کثرت ہوئی اور مریض پر بیہوشی طاری ہونے لگی۔ شام کو حکیم محمد احسن اللہ خان بلائے گئے۔ انہوں نے حقنہ دلوایا، لیکن اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد مریض نے کچھ کہے سنے بغیر کروٹ لی اور بیہوش ہوگیا۔ ہوش میں لانے کی تمام تدابیر بے سود رہیں اور اگلے دن صبح کے چھہ بجتے بجتے ولی عہد کی روح عالم بالا کو پرواز کر گئی۔ قلعے میں کہرام مچ گیا۔ لیکن کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہوکیا گیا؟ موت کی خبر کے ساتھ ساتھ، بلکہ اس سے پہلے ہی، شہر میں افواہ دوڑ گئی کہ حکیم محمد نقی خان نے نواب زینت محل کے ساتھ سازباز کرکے ولی عہد بہادر کو زہر دلوا دیا۔ کسی نے اڑائی کہ بادشاہ کو بھی علاج پر اطمینان نہیں ہے اور وہ انگریز ڈاکٹر بلوار ہے ہیں کہ وہ بتائے کہ ولی عہد کو بیماری کیا تھی۔ لیکن یہ خبر جھوٹ تھی۔ ہشتاد سالہ بادشاہ کے حواس بجا نہ تھے، اسے ان سازشوں میں الجھنے کی قوت کہاں تھی۔
یہ بات درست ہے کہ ولی عہد بہادر کے مرض کی تمام علامات عام ہیضے کے مطابق نہ تھیں، لیکن ہیضہ بہرحال کئی طرح اپنا کام کرتا ہے، اور شہر میں ہیضہ بیشک پھیلا ہوا تھا۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں، اور ثبوت کیا، کوئی سرگوشی بھی نہیں کہ مرزا فتح الملک بہادر کی موت فطری وجوہ سے ہوئی تھی۔ وزیر خانم مجنونوں کی طرح ایک ایک کا منہ تکتی اور کہتی کہ نبض ذرا ٹھیک سے دیکھ لیجئے، میرے صاحب عالم بے ہوش ہیں، ان کی جان نہیں نکلی ہے۔ نواب زینت محل نے البتہ ہنس کر کہا۔ ’’وہ مارا! اب میرے جواں بخت کو ولی عہد بننے سے کوئی نہیں روک سکتا!‘‘۔
جب بادشاہ کی طبیعت کچھ سنبھلی تو آپ نے اپنی خواص خاص بھیج کر وزیر کو تسلی کے کلمات کہلائے اور جنازے کی تجہیز و تکفین و تدفین کا حکم صادر فرمایا۔ میت کو تیار کرنے اور دفنانے کی تیاریاں جلد جلد کی گئیں کہ سخت گرمی اور امس کے باعث نعش کے خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ وزیر پچھاڑیں کھا رہی تھی۔ مرزا ابو بکر، نواب مرزا خان اور خورشید مرزا ماں کو تسلی دینے کی کوشش میں خود رونے لگتے۔ حاتم زمانی بیگم سوتاپے کے باوجود مو پریشان بادیدۂ گریاں وزیر کی ڈیوڑھی میں آئیں اور شوہر کی نعش کی بلا گرداں پھریں، لیکن اب وہاں کیا رکھا تھا۔ شہر سے اکبری خانم، مولوی محمد نظیر اور شاہ محمد آغا باچشم تر آئے۔ مولوی صاحب اور شاہ محمد آغا میت کے سرہانے بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنے لگے اور اکبری بیگم نے وزیر کو گلے سے لگاکر سسکیاں بھرتے ہوئے چھوٹی بہن کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’بی بی صبر کرو مرضی مولی کے آگے چارہ نہیں‘‘۔ وزیر نے رو رو کر اپنا حال برا کرلیا تھا۔ اب بڑی بہن نے گلے سے لگایا تو غش کھاکر گر پڑی۔ اسے لخلخے سنگھائے جانے اور منہ پر گلاب چھڑکے جانے کے دوران باہر شہزادے کو سفر آخرت کے لئے تیار کیا گیا۔ غسل و کفن کے بعد شہزادے کی میت تابوت میں رکھی گئی اور تابوت کو شہزادے اٹھا کر جنازے کی نالکی تک لائے۔
’’سر سے پاؤں تک تمامی نالکی پر لپٹی ہوئی ہے۔ بیٹے، بھتیجے، امیر الامرا نالکی کے ساتھ منہ پر رومال رکھے، آنکھوں سے آنسو زار و قطار بہاتے، کس غم کی حالت میں ادب سے چلے جاتے ہیں۔ دیکھنے والوں کے دل پھرے جاتے ہیں، کلیجے منہ کو آتے ہیں۔ آگے آگے خاصے کے گھوڑے، سپاہیوں کے تمن الٹی بندوقیں کندھوں پر رکھے، تاشہ مرفہ الٹا کئے، پیچھے ہاتھی، ہاتھیوں پر شیر مالیں، روپئے، اٹھنیاں، چونیاں، دونیاں اور ٹکے خیرات کے رکھے ہوئے چلے آتے ہیں۔ سارے شہر کی خلقت دیکھنے کو امڈی چلی آتی ہے۔ عورت و مرد بے اختیار دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔ جامع مسجد پر جنازہ آیا۔ حوض پر جنازے کی نالکی رکھی گئی۔ ہزاروں آدمی جمع ہو گئے۔ سب نے جنازے کی نماز پڑھی، وہاں سے شہر کے باہر جنازہ آیا۔ سب جلوس رخصت ہوا، خاص خاص لوگ جنازے کے ساتھ گئے۔ حضرت خواجہ صاحب کی درگاہ میں جنازہ دفن کیا۔ شیر مالیں، اٹھنیاں، چونیاں، دونیاں اور ٹکے محتاجوں کو بانٹے، خادموں کو روپئے دیئے، فاتحہ پڑھی، قبر پر دو شالہ ڈالا، ایک حافظ قرآن پڑھنے کو، ایک پہرا حفاظت کو مقرر کر کے سب رخصت ہوئے۔ بادشاہ کے یہاں سے برداشت اور حاضری کا معمول مرحمت ہوا‘‘۔ (’’بزم آخر‘‘، ازمنشی فیض الدین)
صاحب عالم و عالمیان مرشد زادۂ جہانیان مرزا محمد سلطان غلام فخر الدین فتح الملک شاہ بہادر کو 10 جولائی 1856ء کی شام کو درگاہ خواجہ صاحب میں حضرت خلد منزل شاہ عالم بہادر شاہ اول کے پہلو بہ پہلو سپرد خاک کیا گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭