میجر بن کر لڑکیوں کو بلیک کرنے والا مکینک نکلا

عمران خان
آرمی کا میجر بن کر کراچی میں لڑکیوں کو بلیک میل کرنے والا ملزم شاہد جنریٹر کی مرمت کرنے والا مکینک نکلا۔ گڈاپ سے تعلق رکھنے والا ملزم شاہد موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے کام ملنے پر گھروں میں جا کر جنریٹرز کی مرمت کرتا تھا۔ ملزم کو ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کی ٹیم نے ایک لڑکی کی تحریری شکایت پر دو ہفتوں کی محنت اور فارنسک انوسٹی گیشن کے بعد سراغ لگا کر گرفتار کیا۔ ذرائع کے مطابق ملزم کے زیر استعمال موبائل فونز اور سوشل میڈیا کی آئی ڈی کو فارنسک جانچ پڑتال پر لگایا گیا تو ان سے ریکور ہونے والا مواد دیکھ کر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے افسران بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔ تفتیش کے دوران ملزم نے مختلف علاقوں میں رہنے والی کم و بیش 30 لڑکیوں کو شادی کا جھانسا دے کر ان کی قابل اعتراض تصاویر اور وڈیو بنانے کا اعتراف کیا۔ ملزم ان لڑکیوں کو گزشتہ دو برس سے بلیک میل کرکے ان سے ماہانہ بھاری رقم وصول کررہا تھا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کی ٹیم نے ملزم کی گرفتاری کے بعد اس سے برآمد ہونے والے مواد کے ذریعے کئی متاثرہ لڑکیوں کو ازخود رابطہ کرکے اطلاع دی کہ انہیں بلیک میل کرنے والا ملزم پکڑا جا چکا ہے، جس پر کچھ لڑکیوں نے سامنے آکر اپنی زندگیاں برباد کرنے والے درندے کے خلاف مدعی بننے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے جبکہ کئی لڑکیوں نے اپنی عزت کی خاطر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی، تاہم انہوں نے ملزم کو گرفتار کرنے پر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے افسران کا شکریہ ادا کیا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے حکام کے مطابق ملزم شاہد نے دو برس قبل فیس بک پر اپنی ایک آئی ڈی بنائی، جس میں اس نے خود کو عمیر علی خان کے نام سے متعارف کرایا۔ اس آئی ڈی میں ملزم شاہد نے فوجی وردی پہن کر اور اسلحے کے ساتھ کئی تصاویر اپ لوڈ کیں۔ ملزم فیس بک پر سادہ لوح اور جواں سال لڑکیوں سے رابطے کرنے کیلئے پہلے انہیں میسج کرتا، اور پھر رابطے میں آنے والی لڑکیوں سے بات چیت بڑھنے پر واٹس ایپ اور موبائل نمبروں کا تبادلہ کرکے آگے کی راہ ہموار کرتا تھا۔ پھر گہری دوستی ہونے کے بعد لڑکیوں کو شادی کا جھانسا دے کر تین تلوار، گلشن اقبال اور میمن گوٹھ کے علاقوں میں قائم گیسٹ ہائوسز اور فارم ہائوسز پر مدعو کرتا تھا۔ جبکہ لڑکیاں اس کو فوج کا میجر سمجھ کر مستقبل کے سہانے سپنے سجاکر اس کے جھانسے میں آجاتی تھیں۔ ملزم لڑکیوں کی قابل اعتراض تصاویر اور وڈیو بنا کر اپنے پاس محفوظ کرلیتا تھا اور بعد ازاں انہیں استعمال کرکے لڑکیوں کو بلیک میل کرتا تھا۔ وہ لڑکیوں کو دھمکی دیتا تھا کہ اگر انہوں نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ یہ وڈیو اور تصاویر نہ صرف سوشل میڈیا پر پھیلا دے گا بلکہ ان کے خاندان والوں اور عزیزوں کو بھی بھیج دے گا، جس پر کئی لڑکیاں خاموشی سے اس کے مطالبات مانتی رہیں۔
ملزم شاہد کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق کراچی کے علاقے گلشن اقبال کی رہائشی مسماۃ ’’م‘‘ نے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی میں درخواست دی کہ عمیر علی خان کے نام سے فیس بک آئی ڈی استعمال کرنے والا شخص اسے بلیک میل کر رہا ہے اور ثبوت کے طور پر اس نے ملزم کی آئی ڈی کے ’’اسکرین شاٹس‘‘ اور اس کے واٹس ایپ پر آنے والے میسج بھی ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کو فراہم کئے۔ متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ ملزم نے پہلے اس کو شادی کی پیشکش کی اور پھر والدین کو اعتماد میں لینے کو کہا۔ پھر ایک روز اس نے کہا کہ وہ اسلام آباد جارہا ہے اور اس کو 30 ہزار روپے کی اشد ضرورت ہے۔ اس پر مذکورہ لڑکی نے کہا کہ اس کے لئے یہ رقم دینا ممکن نہیں، جس پر ملزم نے اس کو بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ متاثرہ لڑکی کے بقول وہ اس قدر ذہنی اذیت کا شکار ہے کہ اگر بلیک میلنگ یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے گی۔ مدعیہ کی درخواست پر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے اس کیس کی انکوائری سب انسپکٹر طارق ارباب کے سپرد کی، جنہوں نے دو ہفتوں تک فارنسک تفتیش کے بعد ملزم کا سراغ لگا کر اس کو گرفتار کرلیا۔ بعدازاں اس کے موبائل فون اور آئی ڈی سے تمام ثبوت اور شواہد حاصل کرلئے گئے۔
ملزم نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ اس کا نام عمیر علی خان نہیں بلکہ شاہد محمود ولد محمد یار ہے اور وہ حاجی زکریا گوٹھ گڈاپ ٹائون کا رہائشی ہے۔ ملزم نے مزید بتایا کہ وہ انٹر پاس ہے اور جنریٹرز کی مرمت کا کام کرتا ہے۔ یہ کام اس نے کم عمری میں ہی اپنی گلی کی ایک دکان پر بیٹھ کر سیکھ لیا تھا۔ اس کی کوئی بہن نہیں ہے، وہ چار بھائی ہیں۔ ملزم کو گرفتار کرنے والے ایف آئی اے افسر طارق ارباب نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملزم سے اس حوالے سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ اس نے حساس ادارے کو بدنام کرنے کیلئے یونیفارم میں تصاویر کس طرح بنوائیں۔ کیونکہ اپنی آئی ڈی پکچرز میں وہ فوجی یونیفارم میں اسلحے کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم سے 30 سے زائد لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کے ثبوت اور شواہد ملنے کے بعد دیگر کئی متاثرہ لڑکیوں سے رابطہ کیا گیا ہے جن میں سے کئی لڑکیوں نے ملزم کے خلاف گواہی دینے اور کیس میں مدعی بننے کے لئے رضامندی ظاہر کی ہے جس کے بعد ملزم کے خلاف کارروائی کا دائرہ مزید وسیع کردیا جائے گا۔ اس کیس میں متاثرہ لڑکیوں کو یہ ریلیف بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ شناخت ظاہر کئے بغیر بھی اپنے بیانات قلمبند کروا سکتی ہیں تاکہ ملزم کے خلاف مضبوط کیس عدالت میں پیش کیا جاسکے ۔
اس ضمن میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل عبدالغفار کا کہنا تھا کہ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے جعل سازی اور فراڈ کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ شہریوں کو سوشل میڈیا پر کسی سے بھی رابطے بڑھانے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کرلینی چاہئے۔ کیونکہ تصدیق کے بغیر بڑھائے گئے روابط اور بھیجا گیا مواد ان کیلئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح والدین کو بھی بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر گہری نظر رکھنی چاہئے اور انہیں رہنمائی فراہم کرنی چاہئے ۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment