عظمت علی رحمانی
شہر قائد کے معروف تجارتی مرکز صدر میں کے ایم سی، کے آپریشن نے تاجروں کو کروڑوں روپے کا مقروض کردیا۔ بیشتر دکان داروں نے ادھار مال اٹھایا ہوا تھا۔ ہول سیل میں خریدا گیا سامان واپس بھی نہیں ہوسکا۔ دوسری جانب ہزاروں ملازمین اور مزدوروں کے گھروں کے چولہے بھی بجھ گئے ہیں۔ صدر ایمریس مارکیٹ کے اطراف میں تین مارکیٹیں مکمل طورپر ختم کردی گئی ہیں۔ جبکہ ایک سرکاری بااثر افسر کی بلڈنگ کو گرانے کیلئے مہلت دی گئی ہے ۔ ان تین مارکیٹوں میں لگ بھگ ایک ہزار 200 سے زائد دکانیں تھیں جن میں سے بیشتر میں شہر کے دیگر علاقوں کی نسبت سستی اشیائے ضروریہ میسر آجاتی تھیں۔ تاہم انسداد تجاوزات کے نام پر ہونے والے آپریشن میں دکاندار براہ راست متاثر ہوئے ہیں جبکہ دکانوں میں کام کرنے والے ملازم، لوڈر اور خریدار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ سروے کے مطابق جہانگیر پارک سے متصل دیوار کے ساتھ قائم 15سے 25 دکانوں پر سستے جوتے، چپل وغیرہ فروخت کئے جاتے تھے جہاں صبح سے شام تک خریداروں کا رش لگا رہتا تھا، وہ مکمل طور پر مسمار کردی گئیں ہیں۔ مذکورہ مارکیٹ کے دکانداروں نے شہر کے دیگر علاقوں میں بڑے ہول سیلرز سے سامان ادھار اٹھا رکھا تھا۔ اس ادھار میں سے کچھ رقم ادائیگی کے ساتھ ہی دوبارہ نیا مال اٹھا لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دکاندار اور ہول سیلر کے مابین ایک سلسلہ مسلسل چلتا رہتا ہے۔ تاہم اب دکانداروں کی جانب سے سامان اٹھا کر گھر وں اور دیگر ٹھکانوں پر منتقل کردیا گیا ہے جبکہ خریدو فروخت کا سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔ تاہم اس میں براہ راست ہول سیلر بھی متاثر ہوگیا ہے کیونکہ اس کا سامان جانا اور اس کے ادھار واپس آنے کا سلسلہ بھی مفقود ہوگیا ہے۔
ایم نعیم چائنہ شوز، لائٹ ہاؤس پر ہول سیل کی بڑی دکان ہے، جہاں پر ہر قسم کے امپورٹڈ، اوریجنل مردانہ، بچگانہ جوگر، سینڈل، بیگ اور جیکٹس ہول سیل پر دی جاتی ہیں۔ یہاں کے دکاندار قسیم کا کہنا تھا کہ ’’ہم پہلے دو تین بار کسی بھی دکاندار کو ادھار پر مال نہیں دیتے۔ تاہم جب کسی ریگولر کسٹمر سے اچھا رابطہ ہو جائے اور وہ اپنی دکان کا بتائے تو اس کو ادھار بھی دے دیتے ہیں۔ اس وقت جوتوں کا اچھا کام ہورہا تھا تاہم آپریشن میں صدر کی دکانیں ختم ہوگئی ہیں۔ اب جب سب کا نقصان ہوا ہے تو ہم بھی کسی سے ادھار واپس مانگ نہیں سکتے کیونکہ وہ خود پریشان ہیں۔‘‘
ایم اے جناح روڈ ٹھٹھائی کمپاؤنڈ چپل گلی میں ایم داؤد چائنہ شوز بھی ہو ل سیل کی بڑی دکان ہے جہاں پر موجود عبید خان کا کہنا تھا کہ ’’ظاہر سی بات ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے آپریشن کیا گیا ہے اور اس میں اگر ذرا سی حکمت عملی بنائی جاتی اور ان دکانداروں کو کہیں اور شفٹ کیاجاتا تو ان لوگوں کے چولہے نہ بجھتے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس میں صرف دکاندار کا نقصان نہیں ہوا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہم ہول سیلر اور لوڈرز تک بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ ہمارے مستقل گاہگ تھے اور اب سردی کا سیزن بھی تھا، ایسے میں ہم سب اس سے متاثر ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر پر کروڑوں روپے ہول سیلرز کے بھی پھنس گئے ہیں۔
ایم اے جناح روڈ موتن داس مارکیٹ کے گراؤنڈ فلور پر واقع ہاشمی چائنا شوز کے دکان دار سید عبدالقوی کا کہنا تھا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کا نقصان ہوا ہے اور اس میں جہاں پر انہیں تکلیف ہے وہیں پر ہول سیلروں کو بھی تکلیف ہوئی ہے۔ ہول سیلرز مارکیٹوں میں تمام ہی دکانداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور انہیں ادھاد دینا پڑتا ہے۔ یہ کاروبار کا حصہ ہے مگر اس طرح جب دکانیں اور پوری کی پوری مارکیٹں بند ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں ہول سیلرز بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
ایمپریس مارکیٹ اور اس کے اطراف میں موجود بعض ایسے دکان دار بھی ہیں جنہوں نے انہی دکانوں سے کام شروع کیا اور کروڑ پتی بن گئے مگر ایسوں کی بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے اپنی جمع پونجی لگائی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے روڈ پر آگئے۔ متاثرین میں ایسے بھی افراد ہیں جو اپنے گھر کے واحد کفیل تھے جبکہ ان کی کفالت میں آنے والوں کی تعداد 29 تک بھی ہے۔ ایسے ہی ایک صاحب اپنا نام محمد انور بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے کنبے میں کل 29 افراد ہیں جن میں 6 بیٹے ہیں، بڑے بیٹے کے 3 بچے اور تین بچیاں ہیں، دوسرے نمبر والے بیٹے کے 7 بچے ہیں جن میں 6 لڑے اور ایک لڑکی ہے، تیسرے نمبر والے بیٹے کی3 لڑکیاں اور ایک بیٹا ہے، چوتھے والے بیٹے کی ایک بیٹی ہے اور دوسرے دو بیٹے پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اس مارکیٹ میں 60 سال گذرے ہیں، ہماری پرندوں کی دکانیں تھیں۔ انہیں سے زندگی کا گذر بسر ہورہا تھا، اب سب ختم ہوگیا ہے۔ میرے تین بیٹے میرے ساتھ کام کرتے تھے اور ایک گیس کمپنی میں ملازم ہے۔ ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ اب ہم اس عمر میں کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں۔ ایک روز قبل کمشنر کراچی کے پاس گئے تھے انہوں نے کہا کہ ہم نے سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو دی ہے جلد انہوں نے متبادل جگہ دینے کا اعلان کیا ہے۔‘‘ ٭
٭٭٭٭٭