صبر و تحمل

امام اعظم ابوحنیفہؒ کا ایک مخالف تھا۔ اس کو پتہ چلا کہ آپ کے والد کی وفات ہوگئی۔ والدہ بوڑھی تھیں۔ نوے سال کے قریب عمر ہوگئی۔
وہ ایک دن آپؒ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ شرع شریف میں حکم ہے کہ تم بیوائوں کا نکاح کردو۔ تمہاری والدہ چونکہ بیوہ ہو چکی ہیں، میں نے سنا ہے کہ بڑی خوبصورت ہیں، حسینہ و جمیلہ ہیں۔ تو میں چاہتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ نکاح کروں۔
حضرتؒ نے سنا تو بھانپ گئے۔ فرمانے لگے: بھئی! میری والدہ عاقلہ بالغہ ہیں اور اس عمر کی عورت کو شرعی طور پر اپنا فیصلہ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، ان کے سامنے جاکر بات کر دیتا ہوں۔
اس نے کہا: بہت اچھا۔ حضرتؒ نے اپنے گھر کی طرف جانے کے لیے دو قدم اٹھائے تو کیا دیکھا کہ اس آدمی کے پیٹ کے اندر کوئی درد اٹھا۔ اسی دور کے اندر وہ بندہ گرا اور وہیں پر اس کی موت آگئی۔ امام اعظمؒ فرمایا کرتے تھے کہ ابو حنیفہ کے صبر نے ایک بندے کی جان لے لی۔ (انمول موتی اول)
قاضی ایاسؒ کہتے ہیں: میں ایک مرتبہ رئیس القضاۃ کی کرسی پر بیٹھا لوگوں کے درمیان فیصلے کر رہا تھا، میرے پاس ایک گواہ کو لایا گیا۔ دو آدمیوں کے درمیان ایک باغ کی ملکیت کے جھگڑے میں، اس شخص نے گواہی دی کہ یہ باغ فلاں شخص کا ہے۔
قاضی ایاسؒ کہتے ہیں: میں نے چاہا کہ دیکھوں کہ کیا یہ شخص سچ بول رہا ہے اور واقعی حقیقی گواہی دے رہا ہے؟ میں نے اس پر جرح کرتے ہوئے پوچھا: کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس باغ میں کتنے درخت ہیں۔
گواہ نے تھوڑا سا سوچا، غور کیا اور سر کو بلند کر کے مجھ سے کہا: محترم رئیس القضاۃ! آپ اس عدالت میں کب سے کام کر رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا: مجھے اتنے سال ہو گئے ہیں۔ گواہ کہنے لگا کہ جس چھت تلے آپ بیٹھے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں اس کی کڑیاں کتنی ہیں؟ ایاسؒ کہتے ہیں: میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ میں نے کہا: تمہاری بات درست ہے اور سچ تمہارے ساتھ ہے اور اس کی گواہی قبول کر لی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment