مرزا فتح الملک بہادر المعروف شہزادہ فخرو کا سوئم اور سوگ ختم ہوتے ہی نواب زینت محل نے بادشاہ پر زور ڈالنا شروع کر دیا کہ جواں بخت کو ولی عہدی کے لیے سرکار کمپنی انگریز بہادر کو لکھیں۔ بادشاہ سلامت کچھ تو تقاضائے عمری کے سبب، کچھ بوجہ ضعف صحت و ہمت اور کچھ بوجہ اس یقین کے کہ میرے بعد بادشاہی نہ رہے گی، اس معاملے میں کچھ زیادہ پرجوش نہ تھے۔ لیکن زینت محل کی محبت انہیں مجبور کر رہی تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ نواب زینت محل کو حضرت قدر قدرت سے محض منہ دیکھے کی، یا غرض مندانہ محبت نہ تھی۔ سولہ سال پہلے جب انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کا نکاح بادشاہ جمجاہ سے ہورہا ہے تو انہیں بہت زیادہ الجھن کا بھی احساس ہوا تھا کہ محض نام کا بادشاہ اور وہ بھی ایسا جس کی عمر ستّر کے لگ بھگ ہو رہی ہے۔ لیکن زینت محل نے قلعے میں بادشاہ کا ٹھاٹ باٹ دیکھا، پھر شاہ آسماں بارگاہ کی خوش خلقی، نرم خوئی اور شائستگی دیکھی، اور سب سے بڑھ کر یہ دیکھا کہ باوجود پیرانہ سالی وہ وظیفہ زوجیت ادا کرنے تے تھے۔ ان سب باتوں نے آہستہ آہستہ نواب زینت محل کا دل بادشاہ کی طرف پھیر دیا اور انہیں اپنے شوہر عالی قدر سے یک گونہ محبت ہو گئی۔ اس طرح شاہ جمجاہ اور ملکۂ دوراں کے درمیان محبت اور الفت بھی تھی۔ اس باعث بادشاہ کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ زینت محل کی بات کو بالکل نظرانداز کر دیں۔
بہت غور و خوض کے بعد حضور عالی جاہ نے کمپنی انگریز بہادر کو جواں بخت کی ولی عہدی کی سفارش کا شقہ لکھوا دیا۔ ان دنوں صاحب کلاں بہادر کے عہدے پر سائمن فریزر عارضی طور پر کام کر رہا تھا۔ سائمن فریزر اور بادشاہ سلامت کے مابین دوستانہ تعلقات اس وقت سے تھے جب انہوں نے بزمانہ ولی عہدی نواب شمس الدین احمد کی گرفتاری اور پھر مقدمے اور سزائے موت کے معاملے میں انگرزیوں کی مساعی کے خلاف کوئی دخل نہ دیا تھا اور اپنے والد عرش آرام گاہ حضرت اکبر شاہ ثانی کو بھی عدم مداخلت کا مشورہ دیا تھا۔ ظل سبحانی نے فریزر کے پاس اپنے نمائندے اس درخواست کے ساتھ بھیجے کہ مرزا جواں بخت کی ولی عہدی منظور کرا دیں۔
لارڈ گورنر جنرل بہادر کو جو خط بادشاہ سلامت نے مرزا جواں بخت کی ولی عہدی کی سفارش میں بھیجے، ان میں مرزا جواں بخت کی عالی نسبی کا بطور خاص ذکر تھا۔ یہ بھی مذکور کیا گیا تھا کہ شہزادہ کئی زبانیں جانتا ہے اور اعلیٰ درجے کی تعلیم سے بہرہ ور ہے۔ ادھر نواب زینت محل نے، یا مرزا جواں بخت نے دوسرے شاہزادوں پر دبائو ڈال کر کئی شہزادوں کے دستخط سے ایک کاغذ اس مضمون کا انگریز کو بھجوایا کہ ہم سب مرزا جواں بخت بہادر کی ولی عہدی پر متحد ہیں۔ اس کاغذ پر مرزا قویش بہادر اور مرزا اظہیرالدین بہادر عرف مرزا مغل نے دستخط نہیں کئے تھے کہ اپنی اپنی جگہ پر یہ دونوں بھی ولی عہدی پر دعویٰ رکھتے تھے۔ لیکن انگریز تو مرزا دارا بخت میراں شاہ کی وفات کے وقت ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ اب بادشاہ کا خاتمہ کرنا بہتر ہے۔ کچھ تو مرزا فتح الملک بہادر کی ہر دلعزیزی، اور کچھ ایوان حکومت انگلشیہ میں نواب زینت محل کے بارے میں اچھی رائے نہ پائی جانے کے باعث ایک عبوری طور کا فیصلہ یہ کر لیا گیا تھا کہ مرزا فتح الملک بہادر ولی عہد تو ہو جائیں لیکن بادشاہت نہ رہے۔ جب مرزا فتح الملک بھی اللہ کو پیارے ہوں گے تو دیکھا جائے گا۔ بر بنائے ایں وجوہ انگریز بہادر نے مرزا جواں بخت، یا کسی اور شہزادے کی ولی عہدی کے لیے کوئی قرار واقعی کارروائی نہ کی۔ ولی عہدی کے معاملے پر جو کاغذات و سفارشات دہلی میں صاحب کلاں بہادر کو موصول ہوئے تھے، وہ ضابطے کے تحت صاحب لفٹن گورنر بہادر صوبہ جات شمال مغرب کی خدمت میں آگرہ بھیج دیئے گئے۔
مرزا فتح الملک شاہ بہادر جنت مکانی کے چہلم کی تاریخ مقرر ہوئی۔ سفید کاغذ پر رقعے لکھوا کر سارے قلعے میں تقسیم کئے گئے۔ ادھر میر عمارت نے کچی قبر کو تھوڑا سا کھلوا کر گلاب، کیوڑہ اور عطر اندر ڈالا، اوپر سے قبر پختہ کرائی، سنگ مرمر کے تعویذ بنوایا، پھر چاروں جانب سنگ مرمر کی جالیاں کھڑی کیں اور فرش لگا کر قبر مبارک تیار کر دی۔ انتالیسویں رات کو سب اقربا ولی عہد بہادر مرحوم کی ڈیوڑھی پر جمع ہوئے۔ جس جگہ مرشد زادۂ جہانیاں نے دم توڑا تھا، وہاں کھانے کا تورہ اور جوڑا، دو شالہ، جانماز، تسبیح، جوتی، کنگھی اور مسواک، کشتیوں میں لگا کر رکھ دیئے گئے۔ تانبے اور چینی کے چھوٹے بڑے برتن، چمچے، تھالی، سرپوش، آفتابہ، بیسن دانی، سب مہیا کئے گئے۔ دو لال سبز بہت بڑی طوغیں، سوا سوا من چربی کی، سرہانے روشن کی گئیں۔ لوبان اور اگرکے دھویں میں رات بھر گریہ و بکا کا شور رہا۔ صبح کو پہلے تمام مرد اعزا قبر پر تشریف لے گئے۔ قبر کے اوپر کمخوابی شامیانہ چاندی کے ستونوں پر کھڑا کر دیا گیا تھا۔ اب قبر شریف کے گرد پھولوں کا چھپر کھٹ بنایا گیا، بیچ میں کمخواب کا قبر پوش، اس پر پھولوں کی چادر ڈالی گئی۔ کھانے کا تورہ اور برتن اور دیگر سامان قبر کے سرہانے رکھے گئے۔ پائنتی جوتی رکھی گئی۔ اب زنانہ ہوا، بیگماتوں نے سر برہنہ، مو پریشاں آکر گریہ و زاری کی۔ ادھر باہر ختم ہوا، الائچی دانے ختم کے سب میں تقسیم ہوئے۔ پھر قوالی ہوئی۔ قوالی کے بعد کھانا کھایا گیا اور غربا کو کھلایا گیا۔ تیسرے پہر کو دوسرا ختم پڑھ کر تورہ، جوڑا، برتن، تمام سامان خادموں میں تقسیم کر کے سب شہزادے اور بیگمات قلعۂ معلی میں واپس آگئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭