مرزا عبدالقدوس
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی تین ماہ تک سرکاری گھر اور دیگر مراعات استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے تمام مراعات چھوڑ کر کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگئے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا اس معاشرے اور ملک میں سدھار کیلئے جہاد جاری رہے گا۔ صرف مورچہ تبدیل ہوگا۔ لیکن فی الحال اس رٹ کی سماعت اور فیصلے کا انتظار کر رہا ہوں، جو میں نے سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے۔ عدالت سے ریلیف نہیں ملا تو وکالت شروع کر دوں گا۔ میں قطعاً کسی بھی وجہ سے مایوس نہیں ہوں اور نہ مومن کو اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا چاہئے۔ میں نے پوری نیک نیتی، اخلاص اور اپنی سوچ کو مثبت رکھتے ہوئے فیصلے دیئے اور ان فیصلوں پر نہ شرمندہ ہوں اور نہ انشاء اللہ روز حشر اپنے اللہ اور ختم المرسلین حضرت محمدؐ کے سامنے شرمندگی ہوگی۔ ہر شخص کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ان ترجیحات کی بنیاد پر اسے زندگی میں مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ میری ترجیح اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل کرنا اور آئین پاکستان کو مقدم رکھنا رہا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو 12 اکتوبر کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ قانون کی رو سے وہ تین ماہ تک سرکاری گھر، تمام عملہ اور گاڑی وغیرہ سمیت جو مراعات انہیں حاصل تھیں، اپنے استعمال میں لاسکتے تھے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ ابھی تک برطرفی کے فیصلے کیخلاف ان کی آئینی درخواست سپریم کورٹ میں موجود ہے، جس پر فیصلہ آنا باقی ہے۔ لیکن شوکت عزیز صدیقی نے 29 اکتوبر کو ہی، یعنی فیصلے کے تقریباً دو ہفتے بعد وہ سرکاری مکان از خود خالی کر دیا، جس کے بارے میں ان پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اس کی تزئین و آرائش پر لاکھوں روپے کے سرکاری اخراجات کرائے تھے۔ انہوں نے سرکاری گاڑی، لیپ ٹاپ، جنریٹر اور یو پی ایس وغیرہ بھی گھر کے ساتھ ہی حکومت اور انتظامیہ کے حوالے کر دیئے ہیں۔ حالانکہ قانون کے مطابق وہ گاڑی سمیت دیگر اشیا کی بک ویلیو ادا کرکے انہیں اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے ساتھ سیکورٹی ڈیوٹی ادا کرنے والے عملے اور دیگر ملازمین کو بھی واپس بھجوا دیا اور اسلام آباد میں کرائے پر حاصل کئے گئے مکان میں شفٹ ہوگئے ہیں۔
’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’’میری درخواست سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ اس کی سماعت کا انتظار کر رہا ہوں۔ ساری زندگی وکالت کی ہے اور قانون کے شعبے سے وابستہ رہا ہوں۔ لیکن جب تک اس درخواست کا فیصلہ نہیں آجاتا، وکالت بھی نہیں کر سکتا۔ ان دنوں زیادہ وقت گھر پر مطالعہ کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ خاندان اور دوست احباب کو وقت دیتا ہوں اور اپنے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں کسی بھی صورت مایوس نہیں ہوں اور نہ اس کا ملال ہے کہ میں اگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوتا تو اب چیف جسٹس ہوتا۔ اگر سپریم کورٹ سے مجھے ریلیف نہ ملا تو اس کے بعد وکالت ہی کروں گا۔ یہی میرا پیشہ اور ذریعہ آمدن رہا ہے اور ہوگا‘‘۔ انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ وکلا برادری نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’’وکلا نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن افتخار چوہدری اور میرا موازنہ کرنا بعض وجوہات کی بنا پر مناسب نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس وقت الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا مکمل آزاد تھا۔ ڈکٹیٹر کے خلاف سیاسی جماعتیں بھی میدان میں تھیں۔ لیکن اب میڈیا پر پابندی ہے کہ میرے نام سے اس پر خبر بھی نہیں چل سکتی۔ کوئی شخص اور ادارہ بھی اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا۔ میرا اپنا بیان ریکارڈ اور ٹیلی کاسٹ نہیں ہو سکتا۔ میڈیا پابندیوں کے حصار میں ہے اور یہ میرے اس موقف کی تصدیق اور اس کا بین ثبوت ہے کہ یہاں کچھ بھی آزاد نہیں ہے اور یہی حقیقت ہے۔ سب لوگوں کو اب اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن لوگوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ وہ سمجھتے ہوئے نا سمجھی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘‘۔ ایک سوال پر سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’’میرا مورچہ تبدیل ہوا ہے۔ میں یا میری سوچ اور وژن نہیں بدلا۔ اللہ کے دین کیلئے، مملکت پاکستان اور معاشرے کیلئے میں حاضر ہوں اور میرا یہ جہاد جاری رہے گا‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’اگر ملک اور معاشرے کیلئے کوئی کردار ادا کرنے کی غرض سے سیاسی میدان میں بھی آنا پڑا تو اس بارے میں ضرور سوچوں گا۔ سرکاری گھر خالی کرنے، گاڑی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی دیگر اشیا واپس کرنے یا ملازمین کو واپس بھجوانے کیلئے مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ میں تین ماہ تک گھر سمیت تمام سہولیات استعمال کر سکتا تھا۔ جبکہ ابھی تک میری اپیل کی درخواست سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ لیکن میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اب چونکہ میں جج کے فرائض ادا نہیں کر رہا تو مجھے اس عہدے کی مراعات بھی ازخود واپس کردینی چاہئیں۔ یہی میری اخلاقیات اور تربیت کا تقاضا تھا، جس پر میں نے عمل کیا۔ اسلام آباد میں میرا کوئی ذاتی مکان نہیں ہے۔ البتہ راولپنڈی میں اہلیہ کے نام پر سات مرلے کا مکان ہے۔ جبکہ آبائی گھر راولپنڈی کے مضافات میں دیہی علاقے میں ہے‘‘۔ شوکت عزیز صدیقی نے مزید کہا کہ ’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ میں نے اپنے عہدے اور کرسی کے ساتھ ہمیشہ انصاف کرنے کی کوشش کی اور دانستہ ایسا کوئی کام نہیں کیا، جس سے میرا اللہ مجھ سے ناراض ہو‘‘۔
٭٭٭٭٭