ایمپریس مارکیٹ کی اندرونی دکانیں بھی ختم کی جانے لگیں

ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کی مارکیٹیں گرائے جانے کے بعد اندرونی حصے میں قائم دکانیں بھی ختم کرائی جانے لگی ہیں۔ کے ایم سی کی جانب سے گوشت مارکیٹ کی 275 دکانوں اور 300 سے زائد دیگر اشیا کی دکانیں فوری خالی کرنے کے حکم کے بعد دکانداروں میں اشتعال پھیل گیا ہے۔ دکاندار افراتفری میں اپنا سامان نکال رہے ہیں۔ دوسری جانب منگل کی شب گوشت کے ناغے کے باعث بند مارکیٹ کے تالے توڑ کر چوکیدار پر تشدد کر کے نامعلوم افراد نے مارکیٹ کے دروازے اور کھڑکیاں مسمار کردیں۔ جبکہ گوشت کی اسٹالز نما دکانوں کے دروازے توڑ کر قیمہ کرنے والی مشینیں، چھریاں، ٹوکے اور دیگر سامان چوری کر لیا گیا۔ ادھر میئر کراچی کی جانب سے ایمپریس مارکیٹ کے اندر میوزیم بنانے کے اعلان پر متاثرہ دکانداروں نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں تاجروں کو بے روزگار کر دیا اور متبادل جگہ کا اعلان اب تک نہیں کیا جارہا، جبکہ بیان اس طرح دیئے جارہے ہیں کہ گویا جنگ فتح کر لی ہو۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ ’’ہماری بربادی کے ذمے دار میئر کراچی ہیں، جو سپریم کورٹ کے احکامات کی آڑ میں تاجروں کے خلاف سازش کررہے ہیں اور اب سڑکوں پر آئے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا‘‘۔
واضح رہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ 1619 تاجروں کو متبادل جگہ دینے کے حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے تاجر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ دکاندار بے روزگار ہونے سے مشتعل ہیں۔ اگر فوری طور پر متبادل جگہ نہ دی گئی تو شہر بھر میں احتجاج شروع کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کراچی نے 3 گھنٹے کے نوٹس پر ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کی دکانیں گرانے کا سلسلہ شروع کیا تو اس دوران ایمپریس مارکیٹ کے اندرونی حصے میں 190 لیز شدہ دکانوں سمیت دیگر 300 دکانوں کو بند رکھا گیا تھا۔ تاہم احاطے میں کراچی کی قدیم گوشت مارکیٹ میں کاروبار جاری تھا۔ اطراف کی مارکیٹیں گرانے کے بعد یہ کہا جاتا رہا کہ ایمپریس مارکیٹ کو مکمل خالی کرانا ہے اور اندرونی حصے میں میوزیم بنایا جائے گا۔ بدھ کی صبح جب بھاری مشینری ملبہ اٹھا رہی تھی، اس دوران کے ایم سی کے چند افراد نے اندر کی دکانوں پر آکر کہا کہ جلدی جلدی سامان نکال لیا جائے، کیونکہ اب اندرونی دکانیں بھی ہٹائی جائیں گی۔
’’امت‘‘ نے صورتحال معلوم کی تو ایمپریس مارکیٹ کے اندرونی حصے میں افراتفری کا عالم نظر آیا۔ اندرونی حصے میں 190 لیز دکانیں اور 110 دیگر دکانیں واقع ہیں۔ ان میں سے غیر قانونی 17 دکانیں جو درمیان کے احاطے میں تھیں، انہیں منگل کو توڑ دیا گیا تھا۔ وہاں موجود ایمپریس مارکیٹ کے تاجر رہنما محمد فاروق کا کہنا تھا کہ ’’اندرونی حصے میں لگ بھگ 300 دکانیں ہیں، جن کو پہلے نوٹس نہیں ملا تھا۔ لیکن اب کہا گیا ہے کہ جلداز جلد سامان نکال لو۔ اگر ایمپریس مارکیٹ کے تاجر رہنمائوں کو اعتماد میں لے کر بتایا جاتا تو شاید یہ افراتفری نہ پھیلتی‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’سپریم کورٹ نے یہ احکامات کب دیئے ہیں کہ ایمپریس مارکیٹ میں میوزیم بنائو اور برٹش دور کی عمارتوں کو اجاگر کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کرایا جائے۔ اب تاجروں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ پریشان ہو کر سڑکوں پر آجائیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے بعد اب شہر میں دیگر قدیم عمارتوں کی مارکیٹوں کو بھی مسمار کرایا جائے گا‘‘۔ ایمپریس مارکیٹ کے اندر دیکھا گیا کہ دکاندار افراتفری میں اپنا سامان نکال رہے تھے۔ خشک میوہ جات کی دکان کے مال عاطف بٹ کا کہنا تھا کہ 60 سال سے یہ دکانیں ان کے خاندان کے پاس نسل در نسل موجود ہیں۔ ابھی متبادل جگہ کے حوالے سے بات نہیں کی گئی ہے، بلکہ کہا گیا ہے کہ جلدی جلدی سامان نکال لیا جائے۔ اس طرح لگتا ہے کہ کے ایم سی والے جنگ کرنے آرہے ہیں۔ وہ انتہائی بدتمیزی سے بات کرتے ہیں۔ ایک دکاندار علیم کا کہنا تھا کہ ان کی 5 دکانیں ہیں، جہاں 27 ملازم کام کرتے ہیں۔ اندرونی دکانیں ہٹانے سے 32 خاندان متاثر ہوں گے۔ 70 سالہ آصف علی کا کہنا تھا کہ وہ 40 سال سے ایمپریس مارکیٹ کے اندر شاپر فروخت کر رہے ہیں۔ ایمپریس مارکیٹ کے تاجر رہنما اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’’تاجر شدید مشتعل ہیں کہ اب تک متبادل جگہ دینے کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ اب انہیں متبادل روزگار کی فکر ہے۔ اگر میئر کراچی، کمشنر کراچی یا وزیر بلدیات متبادل جگہ کا بندوبست نہیں کرتے، تو تاجر سڑکوں پر آجائیں گے اور احتجاجی دھرنے دیں گے‘‘۔ ایمپریس مارکیٹ کے تاجر رہنما اشرف قریشی نے بتایا کہ انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ بلکہ منگل کی رات کو 2 درجن سے زائد افراد آئے اور چوکیدار کو پکڑ اس کا موبائل فون چھین لیا تاکہ وہ کسی ذمہ دار کو اطلاع نہ کر سکے۔ پھر ان لوگوں نے مارکیٹ کے تالے توڑ کر دروازے اور کھڑکیاں نکالیں، جبکہ اسٹالز نما دکانوں میں توڑ پھوڑ کر کے وہاں موجود چھریاں، ٹوکے، قیمہ کرنے والی مشینیں، گوشت لٹکانے والے کنڈے، اسٹالز پر لگے لوہے کے جنگلے اور دیگر سامان نکال کر لے گئے۔ بدھ کی صبح وہی افراد چھتوں پر موجود لوہے کی چادریں بھی نکالتے رہے۔ مارکیٹ کے تاجروں کو جب اس بات کا پتا چلا تو وہ یہاں آئے۔ گوشت کی دکان کے مالک سفیر قریشی کا کہنا تھا کہ ’’میئر کراچی مجبور کر رہے ہیں کہ تاجر سڑکوں پر آجائیں۔ مارکیٹیں مسمار کرنے سے قبل تاجر رہنمائوں کو اعتماد میں لے کر معاملات حل کئے جاتے تو زیادہ بہتر تھا۔ ایمپریس مارکیٹ کے دکان دار خالد قریشی کا کہنا تھا کہ خدارا، لوگوں کو بے روزگار نہ کیا جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment