عباس ثاقب
ہم عمارت کے جس اندرونی کمرے میں پہنچے وہ خاصی قیمتی آرائشی اشیا سے سجایا گیا تھا۔ وہاں دو آرام دہ مسہریوں کے علاوہ تین کرسیاں بھی موجود تھیں۔ ابتدائی گپ شپ کے بعد میں نے ظہیر سے کہا۔ ’’یار میں بتا نہیں سکتا کہ تمہارے کشتواڑ روانگی کے قصد سے جدا ہونے کے بعد میں کتنا فکرمند رہا ہوں۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ تم کتنے سنگین خطرات کا سامنا کرنے جارہے ہو۔ اب ملے ہو تو اطمینان ہوا کہ تم خیر خیریت سے کشتواڑ میں اپنے ساتھیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہوگے‘‘۔
میری بات سن کر ظہیر کے چہرے پر محبت بھری مسکراہٹ ابھری۔ ’’جمال بھائی، میں بھی آپ کے بارے میں ایسے ہی وسوسوں کا شکار رہا ہوں۔ اسی لیے دوبارہ ملاقات پر غیر معمولی خوشی ہوئی۔ باقی جہاں تک میرا تعلق ہے، اتنے خطرناک اسلحے کی بھاری کھیپ کے ساتھ کشمیر کی حدود میں داخل ہونا واقعی جان داؤ پر لگانے کے مترادف تھا۔ لیکن میری خوش قسمتی کہ الور قصبے کے ایک ہوٹل پر کھانا کھاتے ہوئے محض اتفاقاً میری بھائی یاسر بھٹ سے ملاقات ہوگئی‘‘۔
اس کی بات سن کر یاسر بھٹ نے تائید میں سر ہلایا۔ ’’میں کشمیر پر قابض ہندوستانی جابر حکومت کے خلاف جدوجہد میں براہ راست تو شریک نہیں ہوں، لیکن اس جیسے آزادی پسند سر پھروں سے گہری محبت رکھتا ہوں اور کشتواڑ میں ہماری ملاقات ہوتی رہی ہے۔ الور یہاں سے صرف تین میل کے فاصلے پر ہے۔ چنانچہ میں اسے یہاں لے آیا اور اپنے چھوٹے بھائی ناصر سے اس کا تعارف کرادیا‘‘۔
ظہیر نے اس کی بات آگے بڑھائی۔ ’’ان دونوں بھائیوں کی متفقہ رائے تھی کہ اگر میں نے اسلحے کی کھیپ کے ساتھ کشتواڑ کا رخ کرنے کی کوشش کی تو میں کشمیر کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی مارا جاؤں گا۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ میرے پاس یہ خطرہ مول لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے چند دنوں کی مہلت لی اور مجھے یہیں ٹھہرنے کی ہدایت کی‘‘۔
وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا اور پھر بات آگے بڑھائی۔ ’’اگلے چند دن کے اندر بھائی ناصر بھٹ نے اپنے ایک ٹرک کی باڈی میں خفیہ خانہ بنوایا اور پھر مجھے اس ٹرک کے کلینر کے بھیس میں اسلحے سمیت روانہ کر دیا، جو بظاہر مکئی خریدنے کشتواڑ جارہا تھا۔ انہوں نے مجھے ناگنی کے جنگل میں اتار دیا، جہاں سے رات بھر سفر کر کے میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ جہاں میرے ساتھی میرے منتظر تھے۔ یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ ہم نے آنے والے دنوں میں کس طرح جشن منایا ہوگا۔ بس یوں سمجھ لو، وہ درندے اب سڑک سے ہٹ کر جنگل میں گھسنے کی جرأت نہیں کرسکتے‘‘۔
اس کی بات سن کر میں نے خوشی سے بھرا قہقہہ لگایا۔ ظہیر نے بات آگے بڑھائی۔ ’’ہمارے پاس اسٹین گنیں اور رائفلیں تو کئی آگئی ہیں، لیکن گولیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ میں اسی کوشش میں یہاں آیا ہوا ہوں کہ مستقل سپلائی کی کوئی صورت بن جائے‘‘۔
اس موقع پر یاسر نے کہا۔ ’’میں بھی کوشش کر رہا ہوں۔ ناصر اپنے طور پر لگا ہوا ہے کہ کسی بھی قیمت پر کام بن جائے گا۔ ان شاء اللہ جلد کوئی راستہ نکل آئے گا‘‘۔
ان کی بات سن کر میں نے دماغ لڑایا کہ کیا میں اس سلسلے میں ان کی کچھ مدد کر سکتا ہوں۔ ایک دو راستے میری سمجھ میں آئے، لیکن میں نے فی الحال انہیں ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ظہیر نے اس مرحلے پر بھی اپنی عمر سے کہیں زیادہ بردبار اور پختہ سوچ کا مالک ہونے کا ثبوت دیا۔ اس نے اپنی سرگرمیاں تو خوشی خوشی بتا دیں، مجھ سے گزشتہ کئی ہفتوں کا حال جاننے کی کرید نہیں کی۔ ورنہ مجھے جھوٹ بولنے پر مجبور ہونا پڑتا۔ میں بمبئی میں گزارے ہوئے دھماکا خیز شب و روز کا احوال بتانے کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
ہمیں باتوں میں مصروف چھوڑ کر یاسر کچھ دیر کیلئے رخصت کی اجازت طلب کرکے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ہم دونوں میں زیادہ بے تکلفی سے باتیں ہوئیں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں کیوں اسے ڈھونڈتا ڈھانڈتا یہاں تک پہنچا ہوں۔ مٹھو سنگھ کا قصہ سن کر وہ کسی وحشی چیتے کی طرح چوکنا ہوگیا اور اس شیطان صفت شخص کی قید میں موجود بے بس و مظلوم کشمیری بہنوں کا احوال سن کر تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
میں نے اس کی کیفیت بھانپتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے پتا تھا کہ یہ سب جان کر تم پر کیا گزرے گی۔ یقین جانو، جب یہ معاملہ میرے علم میں آیا تھا تو میری بھی یہی حالت ہوئی تھی اور میں نے اسی وقت جان کی بازی لگاکر بھی ان ستم رسیدہ بچیوں کو نجات دلانے کی من میں ٹھان لی تھی اور پٹیالے کی طرف روانہ ہوگیا تھا‘‘۔
میں نے بات آگے بڑھانے سے پہلے ظہیر پر ایک نظر ڈالی۔ اس کا چہرہ پتھر کی طرح بے تاثر دکھائی دیا، البتہ آنکھوں میں الاؤ دہک رہے تھے۔ ’’میں نے ان تینوں کی رہائی کے عوض طلب کردہ رقم ادا کر کے انہیں وہاں سے نکالنے کی ابتدائی تیاری تو شروع کر دی ہے۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ ان بے چاریوں کو آزاد کرانے کے بعد کہاں لے کر جاؤں؟ پھر ان کے کشمیری نسل ہونے ناطے سے مجھے تمہارا خیال آیا‘‘۔
اس نے گہرا سانس لے کر جیسے اپنی جذباتی کیفیت سنبھالنے کی کوشش کی اور پھر حتی الامکان متوازن لہجے میں پوچھا۔ ’’کیا آپ کے پاس واقعی اتنی بھاری رقم موجود ہے؟‘‘۔
اس کی بات سن کر میں نے قدرے مطمئن لہجے میں بتایا۔ ’’یہ تو ان انسان فروشوں کی طرف سے مطالبہ سامنے آنے کے بعد ہی پتا چلے گا، لیکن میرا خیال ہے میں ان کی منہ مانگی قیمت ادا کر سکتا ہوں‘‘۔
ظہیر نے اچانک بکھرے، بلکہ بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’جمال بھائی، ناراض نہ ہونا، مجھے آپ کی یہ باتیں بالکل سمجھ نہیں آئیں۔ ہماری مسلمان، کشمیری بہنیں کیا بے زبان بھیڑ بکریاں ہیں جن کی قیمت ادا کرکے ہم انہیں خریدیں گے؟ آپ کی جگہ میں ہوتا تو پہلے اس خبیث الدہر مٹھو سنگھ کی گردن اتارنے کی سوچتا، اور اس کے بعد اس کے شیطانی اڈے پر تعینات سب کتوں کو گولیوں سے چھلنی کر کے وہاں محصور تمام مظلوم عورتوںکو آزاد کرانے کی سوچتا!‘‘۔
اس کے لہجے پر غصہ آنے کے بجائے مجھے بے ساختہ پیار آگیا۔ میں نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر لپٹاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے پتا تھا میرا چھوٹا بھائی یہی ردِ عمل دکھائے گا۔ اور کوئی بدگمانی نہ رکھنا۔ یہ سب معلوم ہونے کے بعد میں نے بھی یہی کچھ سوچا تھا۔ لیکن میرے لاڈلے بھائی، مزید سوچنے پر مجھ پر یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ ان تینوں بہنوں کو بحفاظت وہاں سے آزاد کروانا اور کسی محفوظ مقام پر پہنچانا سب سے ضروری ہے۔ اس کے بعد مٹھو سنگھ اور اس کے گرگوں سے جیسے جی چاہے نمٹا جا سکتا ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭