ایک مرتبہ قاضی ایاسؒ کے پاس دو آدمی اپنا مقدمہ لے کر آئے۔ مقدمہ سبز رنگ کی قیمتی ٹوپی کے بارے میں تھا۔ دوسرے شخص کی ٹوپی کا رنگ سرخ تھا، مگر وہ خاصی پرانی اور سستی تھی۔ جھگڑا یہ تھا کہ سبز رنگ کی ٹوپی والے کا کہنا تھا کہ ہم دونوں حوض میں غسل کرنے کے لیے اترے تو میں نے اپنی سبز ٹوپی اپنے کپڑوں کے ساتھ رکھ دی۔ یہ شخص مجھ سے پہلے حوض سے باہر آیا تو اس نے میری سبز ٹوپی اٹھالی اور اپنی سرخ ٹوپی میرے کپڑوں کے پاس رکھ دی، جو پرانی اور کم قیمت ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ میری ٹوپی اس سے لے کر میرے حوالے کی جائے۔
قاضی ایاسؒ نے دوسرے شخص کی طرف دیکھا اور کہا: بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟
اس نے کہا: جناب! یہ ٹوپی میری ہے اور میرے ہاتھ میں ہے۔
قاضی ایاسؒ نے مدعی کی طرف دیکھا اور پوچھا: ہاں بھئی! تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے؟ وہ بولا: جناب! ثبوت تو میرے پاس کوئی نہیں۔ بس میں یہی کہتا ہوں کہ حقیقت میں سبز ٹوپی میری ہے۔
قاضی ایاسؒ نے ذرا سا سوچا اور اپنے ایک ملازم سے کہا: جاؤ کنگھی لے کر آؤ۔ ملازم دوڑ کر گیا اور کنگھی لے آیا۔ قاضی نے دونوں کے سروں پر کنگھی پھیری تو ایک کے سر سے سرخ رنگ کے ریشے برآمد ہوئے اور دوسرے کے سر سے سبز رنگ کے ریشے برآمد ہوئے۔
قاضیؒ نے جس کے سر سے سبز رنگ کے ریشے برآمد ہوئے تھے، ٹوپی اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا: لے جاؤ! یہ ٹوپی تمہاری ہے۔
٭٭٭٭٭