نمائندہ خصوصی
وزارت داخلہ میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کیلئے قانون سازی کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اس حوالے سے اپوزیشن سمیت صوبوں کو اعتماد میں لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، کیونکہ اس فیصلے سے سب سے زیادہ خیبر پختون، بلوچستان اور سندھ متاثر ہوں گے۔ ان ذرائع کے مطابق مستقبل میں درپیش مشکلات کے پیش نظر بنگالیوں اور افغانیوں کو شہریت دینے کے حوالے سے پہلے مرحلے میں پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان اور بنگالی باشندوں کو دستاویز ی ثبوت پیش کرنے پر پاکستانی شہریت دی جائے گی۔ دوسرے مرحلے پر ان باشندوں کے والدین کو شہریت دینے پر غور کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جن افغان اور بنگالی خواتین نے پاکستانی مردوں سے شادیا ں کی ہیں، ان کو بھی شہریت دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ البتہ پاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے بنگالی اور افغان باشندوں کو شہریت دینے کا مرحلہ آسان نہیں ہوگا۔ اس کے لئے فول پروف طریقہ کار وضع کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ شہریت دینے کے فیصلے سے پہلے مکمل طور پر قوم کا اعتماد حاصل کیا جائے گا اور اس معاملے کو میڈیا میں بھی بحث کے لئے پیش کیا جائے گا۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ وزارتِ داخلہ کو وزیر ِاعظم عمران خان کی جانب سے غیر رجسٹرڈ افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کے باضابطہ حکم نامے کا انتظار ہے۔ تاہم اس حوالے سے پیشگی اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے چاروں صوبوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ غیر رجسٹرڈ افغان، بنگالیوں اور دیگر غیر ملکیوں کا ڈیٹا وفاق کو بھجوائیں، جس میں غیر رجسٹرڈ غیر ملکیوں کی رہائش سے متعلق معلومات دی جائیں۔
وفاقی وزارت خارجہ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس وقت ملک میں 13 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان موجود ہیں۔ مگر وہ کہاں کہاں رہتے ہیں، یہ وزارت کے علم میں نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق وزارتِ داخلہ کے پاس موجود ڈیٹا میں سے 80 فیصد غیر رجسٹرڈ افراد افغان کیمپوں سے بھی جا چکے ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیرِاعظم عمران خان نے پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں اور چالیس سال سے مقیم بنگالیوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں کے بچوں اور چالیس سال سے مقیم بنگالیوں کو شناختی کارڈز کے اجرا کیلئے وزارتِ داخلہ سے کہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگالی چالیس سال سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ یہ بھی انسان ہیں اور ان کے بھی حقوق ہیں۔
واضح رہے کہ نومبر 2017ء میں ایک دلچسپ صورت حال سامنے آئی تھی۔ سوشل میڈیا پر ایک چینی نژاد پاکستانی کا شناختی کارڈ سامنے آیا تھا، جس کا نام فینگ لین چوئی تھا۔ اس کے بارے میں اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا تھا کہ اس کے والدین نے 1989ء میں پاکستانی شہریت اختیار کی تھی۔ جبکہ فینگ لین چوئی1972ء میں پیدا ہوا تھا، اور اسے 24 اپریل 2017ء میں شناختی کارڈ دیا گیا تھا۔ 45 سالہ فینگ لین کو اس سے پہلے کوئی شناختی کارڈ نہیں دیا گیا۔ لیکن پاکستان میں پیدا ہونے والے ہزاروں افغان اور بنگالی بچوں کو پاکستانی شہریت نہیں دی جارہی ہے، جو پاکستان میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اپنی خدمات پاکستان کو دیتے ہیں، لیکن شہری حقوق سے محروم ہیں۔ اس پر انسانی حقوق کی کسی بھی تنظیم کا کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ وزارت داخلہ کے ذرائع دعویٰ تو کر رہے ہیں کہ ان کے لئے تیاریاں کی جارہی ہیں، لیکن ڈر یہ ہے کہ وزیر اعظم کا یہ اعلان سیاسی دبائو اور خوف کی نذر نہ ہو جائے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ستمبر میں پاکستان میں برسوں سے غیر قانونی طور پر مقیم بنگالی اور افغان باشندوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا تو اس پر سوائے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے، قوم پرست رہنمائوں کے ساتھ ساتھ قومی جماعت ہونے کی دعویدار سیاسی پارٹیوں نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ اس ردعمل پر وزیراعظم کو اپنے بیان کی وضاحت کرنا پڑی تھی اور کہا گیا کہ یہ ایک تجویز ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی اس تجویز کے مخالفین میں خود ان کی جماعت تحریک انصاف کے بھی بعض افراد ہیں۔ پی ٹی آئی میں اس تجویز کے حامی ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئندہ آنے والے وقت میں اقوام متحدہ کا ادارہ ان غیر ملکیوں کی مدد سے ہاتھ اٹھانے والا ہے، جس کے بعد یہ لوگ پاکستان پر مستقل بوجھ بن جائیں گے۔ اس وقت بھی کئی عالمی ادارے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے تو مدد کررہے ہیں، لیکن پاکستان میں غیر قانونی طور مقیم بنگالیوں اور برمیوں کے لئے کوئی عالمی ادارہ پاکستان کی مدد نہیں کرتا۔ عالمی ادارے پاکستان کو اس مد میں چند کروڑ ڈالر دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں، جبکہ ان میں سے بھی زیادہ رقم ان عالمی اداروں کے اہلکار اپنی تنخواہوں کی مد میں وصول کر لیتے ہیں۔ اس لئے پاکستان کی معیشت پر یہ ’’بوجھ‘‘ اگر قانونی شکل میں آجائے تو نہ صرف اخراجات کی اصل رقم معلوم کی جا سکے گی، بلکہ یہ باشندے بلیک میل ہوکر اپنے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کو پناہ دینے پر بھی مجبور نہیں ہوں گے۔
٭٭٭٭٭