مورخین نے کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک خاتون خدا کے نبی حضرت دائود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے خدا کے نبی! آپ کا پروردگار عادل ہے یا ظالم؟
حضرت دائود علیہ السلام نے فرمایا: تیرا ناس ہو اے خاتون! تو کیا بات کر رہی ہے۔ رب تعالیٰ تو سراسر عدل و انصاف ہے، وہ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ پھر اس سے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو، تمہارا قصہ کیا ہے؟
اس عورت نے اپنا قصہ بیان کرنا شروع کیا: اے خدا کے نبی! میں ایک بیوہ عورت ہوں، میری تین بچیاں ہیں، جن کی پرورش میں اپنے ہاتھ سے سوت کات کات کے کرتی ہوں۔ میں دن بھر اور بعض اوقات راتوں کو جاگ کر سوت کاتتی ہوں۔
گزشتہ روز میں اپنا کاتا ہوا سوت ایک سرخ کپڑے میں باندھ کر اسے بیچنے کے لیے بازار جانا چاہتی تھی تاکہ اس کی آمدنی سے بچیوں کے کھانے پینے کا بندوبست کروں، لیکن اچانک ایک پرندہ مجھ پر ٹوٹ پڑا اور سرخ کپڑے کا ٹکڑا جس میں، میں نے سوت باندھ رکھا تھا، اسے گوشت کا ٹکڑا سمجھتے ہوئے لے اڑا۔ میں یونہی حسرت و یاس سے ہاتھ ملتے رہ گئی۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ اپنی بچیوں کو کھانا ہی کھلاسکوں۔
ابھی وہ خاتون حضرت دائود علیہ السلام سے اپنی داستان بیان کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں آپؑ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ حضرت دائود علیہ السلام نے آنے والے کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اجازت ملتے ہی دس تاجر یکے بعد دیگرے اندر داخل ہوئے، جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں سو سو دینار تھے۔ تاجروں نے عرض کیا: خدا کے نبی! ہمارے ان دیناروں کو ان کے مستحق تک پہنچا دیں۔
حضرت دائود علیہ السلام نے ان سے پوچھا: ’’میرے پاس یہ مال حاضر کرنے کا سبب کیا ہے؟‘‘
تاجروں نے جواب دیا: ’’خدا کے نبی! ہم سب ایک کشتی میں سوار تھے۔ اتفاقاً ایک زوردار آندھی آئی، جس سے ہماری کشتی میں ایک جانب سوراخ ہوگیا اور پانی کشتی میں داخل ہونا شروع ہوگیا۔ موت ہمیں سامنے نظر آرہی تھی۔ ہم نے نذر مانی کہ اگر رب تعالیٰ ہمیں اس طوفان سے نجات دیدے تو ہر شخص سو سو دینار صدقہ کرے گا۔
اب پانی کشتی میں تیزی سے داخل ہونے لگا۔ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی، جس سے اس سوراخ کو بند کر سکیں۔ ادھر ہم نے نذر مانی، ادھر رب تعالیٰ نے ہماری مدد کا بندوبست کر دیا۔ ایک بہت بڑا پرندہ منڈلاتا ہوا کشتی کے اوپر آگیا۔ اس کے پنجے میں ایک سرخ رنگ کی پوٹلی تھی۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوٹلی کشتی میں پھینک دی۔ ہم نے لپک کر اس پوٹلی کو پکڑا، اس میں کاتا ہوا سوت تھا۔
ہم نے فوراً اس سے کشتی کا سوراخ بند کیا اور اس میں داخل شدہ پانی کو ہاتھوں سے باہر پھینکا۔ تھوڑی دیر بعد طوفان تھم گیا اور یوں ہم موت کے منہ سے واپس آئے ہیں۔ اب یہ صدقے کی رقم آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ جسے چاہیں، اسے دے دیں‘‘۔
یہ قصہ سن کر حضرت دائود علیہ السلام اس بیوہ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’پروردگار تیرے لیے بحر و بر میں تجارت کر رہا ہے اور تو ہے کہ اسے ظالم گردان رہی ہے؟‘‘
پھر آپؑ نے وہ دینار اس خاتون کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: ’’جائو انہیں اپنی بچیوں پر خرچ کرو‘‘۔ (مجالس النساء)
مدینہ میں رہنا بہتر ہے:
حسین بن عروہؒ کہتے ہیں کہ ہارون رشید حج کے موقع پر مدینہ آیا اور امام مالکؒ کی خدمت میں پانچ سو دینار کی ایک تھیلی بھیجی۔ حج سے فارغ ہوکر دوبارہ مدینہ آیا تو امام صاحب کے پاس پیغام بھیجا کہ امیر المؤمنین کی خواہش ہے کہ امام مالک بغداد تک اس کے ہم سفر رہیں۔ امام صاحب نے اس کے جواب میں قاصد سے کہا کہ تم جاکر کہہ دو کہ وہ تھیلی مہر بند رکھی ہے اور رسول اقدسؐ کا فرمان ہے ’’مدینہ لوگوں کے حق میں بہتر ہے، اگر وہ اس بات کو جان لیں۔‘‘
یہ جواب سن کر ہارون رشید اپنے ارادہ سے باز آگیا۔ امام صاحبؒ کے حاسدوں نے ایک مرتبہ خلیفہ ابو جعفر منصور کے پاس جاکر کہا کہ امام مالک آپ لوگوں کی بیعت کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اور عباسی خلافت کے منکر ہیں۔ یہ سن کر ابو جعفر منصور غضبناک ہوا اور امام صاحبؒ کے کپڑے اتروا کر کوڑے مارے گئے، جس میں آپؒ کا ہاتھ بھی اکھڑ گیا۔ یہ دکھ تو پہنچا مگر اس سے آپ کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا۔ یہ کوڑے آپ کے لئے گویا زیور بن گئے اور عوام و خواص میں آپ کی مقبولیت بڑھ گئی۔ (بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭