ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی لکھتے ہیں:
بہت زیادہ دن نہیں ہوئے، جمعرات کی ایک شام تھی، میں آبائی قبرستان میں اپنے اجداد اور عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے بعد تربتوں کے بیچوں بیچ ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزر رہا تھا کہ مجھے کچھ ہی دور تدفین کا ایک منظر نظر آیا۔ کلمہ شہادت کی گونج میری سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی۔ قبرستان میں یوں بھی دل کی حالت بدل جاتی ہے۔ میرے قدم اضطراری طور پر اس جانب بڑھنے لگے، جہاں تدفین عمل میں لائی جا رہی تھی۔
میرا وہاں پہنچنا تھا کہ کلمہ شہادت کا شور بلند ہوا۔ یہ جسد خاکی کو قبر میں اتارنے کا مرحلہ تھا۔ بہت سوں کی روتے ہوئے چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔ مجھ پر بھی گریہ طاری ہو گیا۔ قریب ترین پہنچا تو کسی نے بلند آواز سے کہا ٹھہرو ٹھہرو، انہیں بھی چہرہ دکھا دو۔ پھر میت کے چہرے سے کفن کا کپڑا ہٹایا گیا۔ میں نے دیکھا گلاب کے پھولوں میں لپٹا چہرہ بیس، بائیس سال کے نوجوان کا تھا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
چہرہ اتنا خوبصورت کہ مجھے آسمان سے اس پر گل قدس کی پتیاں نچھاور ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ میں نے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے اس کا دیدار کیا۔ فرط جذبات سے جھک کر اس کے ماتھے کو چھوا تو وہ زندہ انسان کی طرح گرم تھا۔ میرے منہ سے نکلا خدا حافظ اور پھر اس کا چہرہ ڈھانپ کر کلمہ شہادت کی گونج میں اسے قبر میں اتار دیا گیا۔ میرے دل نے روتے ہوئے سوال کیا: کیا چاند بھی قبر میں اتار دئیے جاتے ہیں؟ پھر کیا تھا جب تک لوگ اس کی قبر کو مٹی دیتے رہے، میری پلکوں پر ستاروں کی جھلمل رہی۔ میری آنکھوں میں برسات امڈ آئی تھی مگر میں نے ضبط کے بندھن نہ ٹوٹنے دئیے۔ تدفین کے مراحل طے ہوئے، تلاوت کلام پاک کی گئی، پھر کسی نعت خواں نے علامہ جامیؒ کا کلام پڑھ کر گویا سب کی روح ہی مسخر کر لی۔
نسیما جانب بطحا گزر کن
زاحوالم محمدؐ راخبر کن
ہائے میری روح کی اتھاہ گہرائیوں سے کبھی ایسے پاک لمحوں کا بھی گزر ہوا تھا کہ روضہ رسولؐ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ قبر کے چاروں اطراف کھڑا ہر شخص دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔ تیری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول۔ میرے دل نے سرگوشی کی تم نے ابھی جو گلاب سا چہرہ دیکھا وہ ایک شہید نوجوان کا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں خود جنت الفردوس کی فضاؤں میں کھڑا اس نوجوان کو وہاں شہیدوں کے ایک قریہ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ پھر مجھے دفعتاً یاد آیا کہ اس نوجوان کا ماتھا روایتی میت کی طرح ٹھنڈا ٹھار نہیں بلکہ خاصا گرم تھا۔ یہ شہید کے زندہ ہونے کی نشانی تھی۔
ایسے میں اقبالؒ کی روح میرے سامنے کھڑی تھی اور میری سماعتوں سے پھر اک ملکوتی آواز ٹکرائی :
میرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭