سرفروش

عباس ثاقب
ظہیر نے پہلے میرے موقف کو سرے سے مسترد کر دیا۔ پھر رفتہ رفتہ وہ پٹری پر آگیا۔ میں نے کہا۔ ’’دیکھو، تینوں بہنوں کی عزت و سلامتی کے مقابلے میں دولت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر ہم انہیں حاصل کرلیں تو یہ اپنی جگہ پر بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مٹھو سنگھ کو مزا چکھانے کا معاملہ ہم اپنی سہولت کے مطابق نمٹالیں گے۔ تم صرف یہ بتاؤ کہ اگر ہم ان تینوں بہنوں کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں کشمیر پہنچانے اور ان کے لیے عزت کی زندگی یقینی بنانے میں تو مجھے تمہاری مدد مل جائے گی ناں؟‘‘۔
ظہیر نے جذبات سے بوجھل لہجے میں کہا۔ ’’تم فکر ہی نہ کرو جمال بھائی، اس سے بڑا جہاد کون سا ہو سکتا ہے؟ ہم کشمیری تو ماؤں، بہنوں کے آنچل کا حقیر ٹکڑا بھی جان سے بڑھ کر قیمتی سمجھتے ہیں۔ یہاں تو تین تین بہنوں کی عزت کا سوال ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’بس ٹھیک ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ میں کل صبح پٹیالے جاکر اس منحوس دلال مانک کے مسافر خانے شانتی استھان میں جاکر ڈیرا جماتا ہوں۔ تم بھی کل پٹیالے پہنچ جاؤ۔ ہم عصرسے پہلے وہاں موتی باغ محل کے مرکزی پھاٹک پر ملیں گے اور آئندہ کی حکمتِ عملی طے کریں گے۔ شاید تب تک مجھے مانک سے ملنے کا موقع مل جائے‘‘۔
ظہیر پر ایک بار پھر غصہ سوار ہونے لگا۔ ’’اس لعنتی شخص کو میری نظروں سے تو دور ہی رکھیے گا۔ نفرت سے بے قابو ہوکر کہیں میں اس کی آنکھیں ہی نہ نوچ لوں۔ یقین نہیں آتا پیسے کے لیے انسان اتنا بھی گر سکتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’دولت کی ہوس ایک لاعلاج مرض، ایک ختم نہ ہونے والی لعنت ہے بھائی۔ میں نے کہیں پڑھا تھاکہ انسان کے پاس اگر ایک پوری وادی سونے کی ہو تو وہ دوسری کی خواہش کرے گا۔ اگر دو وادیاں ہوجائیں گی تو تیسری سونے کی وادی طلب کرے گا۔ بے شک دولت کی ہوس کے مارے انسان کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے‘‘۔
ظہیر نے میری بات سن کر تائید میں سر ہلایا۔ ’’لیکن مانک جیسے لوگوں کو جلد از جلد قبر تک پہنچانا بھی تو نیکی ہے جمال بھائی!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہم کس کس کو موت کے منہ میں پہنچا سکتے ہیں ظہیر بھیا؟ میں نے اس فوٹو گرافر لال سنگھ کا بھی بتایا ہے ناں؟ جو اپنا خاصا باعزت کاروبار چھوڑ کر اس غلیظ دھندے میں لگا ہوا ہے‘‘۔
اس اثنا میں یاسر بھٹ بھی واپس آگیا۔ گیٹ کھولنے والا نوجوان بھی اس کے ساتھ تھا، جس نے کھانے سے بھر ا بڑا سا طباق اٹھا رکھا تھا۔ یاسر شاید اسی جستجو میں گیا تھا۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی، چنانچہ ہم تینوں نے مل کر پنجابی طرز کا وہ لذیذ اور مرغن کھانا کھایا۔ فارغ ہوکر میں نے یاسر کو بتایا کہ میری ظہیر سے بات ہوگئی ہے اور ہم نے آئندہ کے معاملات طے کرلیے ہیں، چنانچہ ہم واپس جاسکتے ہیں۔
میں نے کہا۔ ’’میں آپ کو لدھیانے چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد سیدھا اپنے سردار میزبانوں کی طرف چلا جاؤں گا‘‘۔
میری بات سن کر اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’بھائی میری فکر نہ کرو۔ میں رات یہیں رکوں گا اور صبح ناصر سے کچھ کاروباری مشورے کر کے لدھیانے جاؤں گا۔ وہ انبالہ گیا ہوا ہے۔ آپ کو بھی واپسی پر لدھیانے ہوکر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایک مختصر راستے سے آپ کو چھاجلی روانہ کرتا ہوں۔ یہاں سے ایک سڑک سیدھی نابھا جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹے میں وہاں پہنچ جاؤ گے۔ وہی سڑک تمہیں مزید ڈیڑھ دو گھنٹے میں بھوانی گڑھ اور سونام کے راستے چھاجلی پہنچا دے گی‘‘۔
میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’یہ تو واقعی آپ نے بہت مختصر راستہ سمجھایا۔ بھوانی گڑھ سے آگے کا راستہ تو ویسے بھی مجھے معلوم ہے۔ آپ کا بہت شکریہ!‘‘۔
انہوں نے مصنوعی ناراضی کے ساتھ کہا۔ ’’دلّی والے کنہیا بھائی، میں نے کہاں ناں تم میرے لیے ظہیر اور ناصر ہی جیسے ہو۔ اب مزید شکریے کی بانسری بجائی تو اچھا نہیں ہوگا!‘‘۔
ظہیر اور یاسر بھٹ مجھے نابھا جانے والی سڑک تک چھوڑنے آئے، حالانکہ وہ کوئی پیچیدہ راستہ نہیں تھا۔ ہم نے گرم جوشی سے ایک دوسرے کو الوداع کہا اور میری جیپ مجھے لے کر واپسی کے سفر پر چل پڑی۔ تین گھنٹے سے کچھ زائد پر محیط سفر طے کر کے میں نے براہم دیپ سنگھ کی حویلی کے سامنے جیپ روکی تو سارے گھر انے کو پریشانی اور بے تابی کے عالم میں اپنا منتظر پایا۔
سب سے پہلے بزرگ سردار نے مجھے پیار بھری جھاڑ پلائی۔ ’’او یار تیغ بہادر، میں تو تمہیں بہت سمجھ دار بچہ سمجھتا تھا، تم نے یہ کیا حرکت کی؟ کوئی خیر خبر دیئے بغیر سارا دن غائب رہے، پلٹ کر خبر ہی نہیں لی۔ یہاں فکر کے مارے حالت خراب ہے…‘‘۔
وہ شاید مزید کھنچائی کرتے، لیکن سکھونتی نے اپنے خاوند کی بات کاٹ دی۔ ’’پُتر سب خیرتھی ناں؟ گاڑی خراب تو نہیں ہوگئی تھی؟ یا راستہ بھٹک گئے تھے؟‘‘۔
میں نے بہانہ سجھانے پر دل ہی دل میں بزرگ سردارنی کا شکریہ ادا کیا اور فوری کہانی گڑھ کر میرا چہرہ تکتے میزبانوں کو سنادی۔ ’’پہلی بات تو یہ ہے جی کہ میں آپ سب سے شرمندہ اور معافی کا طلب گار ہوں کہ میری وجہ سے سارے گھر والوں کو پریشانی اٹھانا پڑی۔ دراصل میں واقعی راستہ بھول گیا تھا‘‘۔
میری بات سن کر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس پر میں نے اپنی کہانی میں مزید رنگ آمیزی کی۔ ’’میں اپنی سمجھ کے مطابق سونام کی طرف گیا تھا، لیکن جانے کون سا موڑ غلط مڑ کر راستہ بھٹک گیا۔ ایک بستی پہنچ کر کسی سے یہاں کا پوچھا تو پتا چلا کہ وہ محلاں نامی گاؤں ہے اور مجھے اب سونام کے راستے واپس جانا ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے میں نے ایک کچے راستے پر جیپ چڑھائی تو ایک موڑ مڑنے پر اچانک ایک چھوٹے سے جوہڑ میں جیپ کا ٹائر اتر گیا‘‘۔
اس سے پہلے کہ وہ سب تشویش کا اظہار کرتے، میں نے کہا۔ ’’شکر ہے رفتار زیادہ تیز نہیں تھی، اس لیے مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی۔ لیکن قریبی گاؤں سے کچھ لوگوں کی مدد حاصل کرنے اور بیلوں کی ایک جوڑی کے ذریعے کھنچواکر جیپ نکلوانے میں کئی گھنٹے لگ گئے‘‘۔
میری بات سن کر امر دیپ نے قہقہہ لگاکر کہا۔ ’’تو یوں کہو کہ اپنے پنجاب کی سیر کا پورا مزا لیا ہے آج تم نے۔ شکر ہے، بھائی خیریت سے گھر تو واپس آگئے۔ وہ بدھو والی کہاوت تو سنی ہوگی تم نے؟‘‘۔
امر دیپ کی جملے بازی سے گھر کا ماحول خوش گوار ہوگیا اور میری دن بھر غیر حاضری پر تجسس آمیز سوالات کا سلسلہ بھی اختتام کو پہنچا۔ میں نے سستے چھوٹ جانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment