امارتی کانفرنس پاکستان مخالف بیٹھک بنی رہی

احمد نجیب زادے
اماراتی کانفرنس پاکستان مخالف بیٹھک بنی رہی۔ ابو ظہبی میں منعقدہ ایک غیر معمولی سفارتی کانفرنس میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست اور ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت پر قدرت نہ رکھنے والا ملک بنا کر پیش کیا گیا۔ بھارتی ایڈیٹر روی اگروال اور امارات ڈپلومیٹک اکیڈمی کی کوششوں سے منعقد پاکستان مخالف کانفرنس پر امارات میں پاکستانی سفیر کانوں میں تیل ڈالے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دو روزہ کانفرنس میں کئی نو آموز بھارتی سفیروں نے بھی شرکت کی اور کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی تین عدد ویڈیوز کی مدد سے پاکستان دشمن منتظمین نے مملکت خدادا کو ’’دہشت گرد ملک‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔ پاکستان مخالف کانفرنس کے ججوں میں بلفر سینٹر برائے ہاورڈ کے انٹرنیشنل سیکورٹی پروگرام ڈائریکٹر اسٹیون ملر بھی شامل تھے۔ فارن پالیسی میگزین کے تحت منعقد کرائی جانے والی اس کانفرنس کو ’’امن گیم‘‘ قرار دیا گیا تھا، لیکن اس کا اصل مقصد اقوام عالم میں پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ اماراتی جریدے دی نیشنل نے ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر کے نو آموز سفارت کاروں کو ٹریننگ دینے کیلئے فارن پالیسی میگزین کے بھارتی ہندو ایڈیٹر روی اگر وال کی نگرانی میں 14-15 نومبر کو امارات میں غیرمعمولی کانفرنس منعقد کی گئی ہے جس میں 300 سے زائد سفارت کاروں اور بھارت سمیت مختلف ممالک کے سفیروں نے شرکت کی ہے اور نئے سفیروں کی تربیت کیلئے اس کانفرنس میں جو ’’موضوعات‘‘ پیش کئے گئے، ان کے حل کیلئے نئے انڈر ٹریننگ سفیروں سے ان کی رائے طلب کی گئی۔ جبکہ ہر ہر ویڈیو کے بعد سینکڑوں نو آموز عالمی سفیروں کو ذاتی اور اجتماعی بحث سمیت اپنی آرا کی پریزنٹیشن بنا کر حل پیش کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ پاکستان مخالف کانفرنس میں اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش، وزیر داخلہ ذکی نصیبہ اور اماراتی وزیر برائے عالمی تعاون امور ریم الہاشمی نے بھی شرکت کی۔ اماراتی سرزمین پر منعقد کی جانے والی پوری کانفرنس کے سیشن میں پاکستان مخالف ویڈیوزکا دکھایا جانا اس بات سے عبارت ہے کہ پوری دنیا کے نئے انڈر ٹریننگ سفیروں کو یہ بات باور کرائی جائے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے۔ اس کا اپنے ملک کے عسکریت پسندوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور اس کے ایٹمی ہتھیار غیر محفوظ ہیں جن کے کنٹرول کیلئے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے نئے قوانین لاگو کئے جانے چاہئیں یا ان ایٹمی ہتھیاروں کو پاکستان کے کنٹرول سے نکال کر اقوام متحدہ کے کنٹرول میں لے لینا چاہئے۔ جن موضوعات کو کانفرنس کے سینکڑوں شرکا اور منتظمین کے روبرو بڑی اسکرین پر پیش کیا گیا ان میں پہلا پاکستان مخالف فرضی موضوع ’’نئی دہلی پردہشت گردانہ حملہ‘‘ تھا، جس کے بارے میں کانفرنس منتظمین نے دنیا بھر کے 22 اسٹریٹجک اداروں سے منسلک درجنوں سفیروں کو ٹاسک دیا تھا کہ فرض کریں ’’سینکڑوں پاکستانی عسکریت پسندوں نے بھارتی دارالحکومت میں ’’یوم جمہوریہ‘‘ کی تقریب پر حملہ کرکے 300 بھارتیوں کو قتل کر ڈالا اور اس کے جواب میں بھارتی افواج نے پاکستان میں فوجیں داخل کرکے مختلف علاقوں پر قبضہ کرلیا اور وہاں سے نکلنے کیلئے ایک شرط یہ رکھ دی ہے کہ جب تک دہلی پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے سربراہ کو پاکستان، بھارتی حکومت کے حوالہ نہیں کرے گا اس وقت تک پاکستانی علاقوں پر قابض بھارتی افواج کو واپس نہیں بلایا جائے گا‘‘ تو اس سنگین صورت حال پر آپ کیا کریں گے؟ دوسرے منظر نامہ میں پاکستان مخالفت کی انتہا کردی گئی اور کانفرنس کے شرکا کو اس بناوٹی منظر نامہ میں بتایا گیا کہ ’’پاکستان کی افواج کی جانب سے سرحدوں پر تعینات/ نصب ایٹمی ہتھیاروں کو عسکریت پسندوں نے قبضہ میں لے لیا ہے ۔ اس سنگین منظر نامہ پر نئے سفیروں کو گروپ ڈسکشن، باہمی مشاورت، ذاتی و انفرادی خیالات اور تجاویز کی مدد سے ’’حل‘‘ پیش کرنے کیلئے کہا گیا۔ جبکہ بھارت، امریکا اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے درجنوں کہنہ مشق سفیروں اور خارجہ امور کے ماہرین کو ’’ایکسپرٹ پینل‘‘ کے تحت کانفرنس میں مقرر کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان مخالف تینوں ویڈیوز پر اپنی رائے دینے والے نو آموز سفیروں کو ماہرانہ ٹپس بھی دیں تاکہ نئے سفیر ایسے منظر نامہ پر اپنی رائے کو مستحکم بنا سکیں۔ پاکستان مخالف پراپیگنڈے پر مبنی فارن پالیسی میگزین کی کانفرنس کے بھارتی منیجنگ ایڈیٹر روی اگر وال جو بھارتی انٹیلی جنس کے انتہائی قریب اور پاکستان مخالف سمجھے جاتے ہیں، نے ابو ظہبی کانفرنس کے حوالہ سے دعویٰ کیا کہ کانفرنس میں پیش کردہ منظر نامہ مبنی بر حقیقت ہے۔ دونوں کھلاڑی اپنے قدم جما رہے ہیں ۔لیکن آپ (نو آموز سفیروں) کو چاہئے کہ پورے منظرنامہ کو سمجھیں اورکچھ لئے دیئے کی بنیاد پر دبائو کو سمجھیں اور مسئلہ کو پر امن طریقہ پر حل کریں۔ ابو ظہبی کی اس کانفرنس میں شریک سینکڑوں نو آموز اور کہنہ مشق سفیروں کو سنگین علاقائی مسائل اور تنازع کی آڑ میں پاکستان کو بد نام کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس پاکستان مخالف کانفرنس کے سیشن کا انعقاد سعدیات جزیرے پر واقع ’’سینٹ ریگس ہوٹل‘‘ میں کیا گیا تھا۔ پاکستان کو بدنام کرنے والی اس کانفرنس کے شرکا کو بزعم یہ بتایا گیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرکے پُر امن طریقہ سے دنیا کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ سفارتی کانفرنس کے حوالہ سے مزید علم ہوا ہے کہ اس کے شریک سفارت کاروں کو تین ویڈیو دکھائی گئی تھیں جن میں پاکستان کو ظالم اور بھارت کو مظلوم دکھایا گیا ہے۔ پہلی بناوٹی اور پروپیگنڈا ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسندوں کی حرکتوں (بھارتی یوم جمہوریہ پر پاکستانی عسکریت پسندوں نے حملہ کرکے سینکڑوں بھارتیوں کو مار ڈالا ہے) کے سبب پاکستان بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے اور دوسری ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو دہشت گردوں نے حملہ کرکے اپنے قبضہ میں کرلیا ہے۔ تیسری ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی افواج نے حملہ کرکے دہشت گردوں کی جانب سے قبضہ میں لئے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کو واپس بازیاب کروا لیا ہے، لیکن اس بازیابی کے بعد اقوام متحدہ نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کیلئے اس کی جانب سے لاگو کئے جانے والے ’’نیو کلیئر ویپنز سیفٹی‘‘ کے عالمی قوائد و ضوابط پر عمل کرے۔ فارن پالیسی میگزین کی کانفرنس کے بھارتی منیجنگ ایڈیٹر روی اگر وال کا کانفرنس کے اختتام پر کہنا تھا کہ نوجوان اور نو آموز سفیروں کی جانب سے دیا جانے والا رد عمل نپا تلا، ذہانت سے پُر اور تنازع کو بھڑکنے سے روکنے کے عزم والا تھا، جس میں دنیا بھر سے آنے نئے سفیروں نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ دونوں حریف ممالک کو آپسی رابطوں کیلئے ہاٹ لائن قائم کرنی چاہئے اور دہشت گردوں کے مخصوص اہداف والے اسٹریٹیجک علاقوں کو ’’نو فلائی زون‘‘ میں تبدیل کرنا چاہئے اور بحری بندرگاہوں کی حفاظت کرنی چاہئے اور دونوں ممالک کو ایک دوسرے کیخلاف یکطرفہ ایکشن لینے سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ اس پاکستان مخالف کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سابق سفیر اور منتظم کمیٹی کے ادارے ’’امارات ڈپلومیٹک ایجنسی‘‘ کے ڈائریکٹر برنارڈینو لیون نے بھی خطاب کیا ۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment