امت رپورٹ
آسیہ ملعونہ کو بیرون ملک بھیجنے یا نہ بھیجنے کے حوالے سے خود حکمراں جماعت شدید تقسیم کا شکار ہوگئی ہے۔ مذہبی جھکاؤ رکھنے والے پارٹی رہنما اس حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں کہ ملعونہ کو سزا ملنی چاہئے۔ ورنہ اس سے نہ صرف اللہ اور رسولؐ کی ناراضگی کا شدید خطرہ ہے۔ بلکہ حکومت بھی بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ ذریعے کے بقول تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اگرچہ یو ٹرن لینے کی عالمی شہرت رکھتے ہیں، اور اس کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے حکومتی فیصلے پر تکیہ کرنے کے بجائے عدالتی فیصلہ اپنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حالانکہ، ایک پارٹی رہنما کے بقول ایسا کرنے سے حکومت ادھر کی رہے گی نہ ادھر کی۔ دارالحکومت میں ایک اہم پارٹی ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز احمد چوہدری سمیت کم سے کم نصف درجن پارٹی رہنما ملعونہ کی رہائی اور بیرون ملک روانگی کو حکومت اور پارٹی کے لئے مشکلات بڑھانے والا اقدام قرار دے رہے ہیں۔ ذریعے کے بقول اس گروپ میں بعض اہم صوبائی رہنما بھی شامل ہیں۔ گروپ کا خیال ہے کہ ملعونہ کے معاملے پر بیرونی دباؤ سے زیادہ اندرونی دباؤ سے خطرہ ہے۔ اور یہ دباؤ صرف تحریک لبیک پیدا نہیں کر رہی۔ بلکہ تمام مذہبی جماعتیں اس کے پیچھے ہیں۔ اس گروپ کا خیال ہے کہ عوام کی بہت بڑی اکثریت ملعونہ کے مجرم ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو درست نہیں سمجھتی۔ اس لئے اس حوالے سے صرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر تکیہ کرنا درست نہیں۔ گروپ کے ایک اہم رہنما نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، جس طرح ممتاز قادری کو شہید کرنے کا فیصلہ نواز حکومت کو لے ڈوبا۔ اسی طرح ملعونہ آسیہ کو باہر بھیجنے کا فیصلہ بھی پی ٹی آئی حکومت کے گلے میں آ جائے گا۔ ذریعے کے بقول ممتاز قادری کے معاملے میں بھی عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہوا تھا۔ لیکن اس کا بھگتان نواز حکومت نے بھگتا۔ عدالت نے نہیں۔ آج بھی اگر موجودہ عدالتی فیصلے پر عمل کیا گیا تو یہ کہہ دینے سے جان نہیں چھوٹے گی کہ ملعونہ کے بارے میں عدالتی فیصلے کو مانا گیا تھا۔ یہ سارا ملبہ حکومت پر آ گرے گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک اور پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری پارٹی میں سیکولر اور مشرف رسیدہ گروپ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں یہ ٹاسک ملا ہے کہ وہ پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے رہیں۔ ورنہ سینیٹ چیئرمین سے تکرار، اپوزیشن کو للکار اور ناموس شان رسالت میں گستاخی کے معاملات پر بے احتیاطی سے دیئے گئے بیانات پارٹی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں۔ تاہم ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ فواد چوہدری کو براہ راست عمران خان کی ذاتی تھپکی حاصل ہے۔ وگرنہ ان میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ بم کو لات مارتے پھرتے۔ ذریعے کے بقول بعض دیگر رہنماؤں نے عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ فواد چوہدری کو اتنی ڈھیل نہ دیں۔ ورنہ اس کا نتیجہ ساری پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔ تاہم ذریعے کے بقول پارٹی سربراہ کی سوچ یہ ہے کہ فواد نے ساری اپوزیشن کو اپنی جانب انگیج کر رکھا ہے۔ اس سے حکومت براہ راست ہدف بننے سے بچ گئی ہے۔ اور وہ سکون سے اپنے فیصلے کر رہی ہے۔ جبکہ فواد دھول اڑا کر اپوزیشن سمیت تمام مخالفین کو اپنے ٹرک کی بتی کے پیچھے چلا رہے ہیں۔ ایک اور پارٹی رہنما کے بقول فواد چوہدری کے بیانات یورپی یونین اور مغربی ممالک کو مطمئن رکھنے کا ایک سبب ہیں۔ جو ریاست مدینہ کے حوالے دینے پر عمران خان کے بارے میں کچھ چوکنے ہو گئے تھے۔ ذریعے کے بقول یہ بات طے ہے کہ ملعونہ کے معاملے میں دباؤ جس طرف سے زیادہ ہوا۔ حکومت اسی طرف جھک جائے گی۔ اگر بیرونی دباؤ بڑھ گیا تو عدالتی فیصلے کے بعد ملعونہ کو بیرون ملک بھیج دیا جائے گا۔ اور اگر اندرونی دباؤ بڑھا تو روک لیا جائے گا۔ کیونکہ عمران خان کے بقول ’’یو ٹرن لینے میں کوئی حرج نہیں اور وہ لیڈر ہی نہیں جو یوٹرن نہ لے‘‘۔
ادھر تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی سیکریٹری نشر و اشاعت پیر محمد اعجاز اشرفی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے نظر ثانی اپیل پر فیصلہ دیتے ہوئے ملعونہ کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھا یا کوئی فیصلہ آنے سے قبل ملعونہ کو بیرون ملک بھجوایا گیا تو عاشقان رسول تحفظ ناموس رسالت کی خاطر سڑکوں پر ہوں گے اور بھرپور احتجاج کریں گے۔ اس سوال پر کہ اطلاعات ہیں بارہ ربیع الاول کے بعد حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کے خلاف اہم اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا… ’’ہم اس ملک میں موجود ہیں اور انشاء اللہ رہیں گے۔ جب کچھ ہوگا تو ہماری قیادت بھی اپنی حکمت عملی واضح کرے گی۔ جیل، سزائیں یا پابندیاں ہمارا راستہ نہیں روک سکیں گی۔ ناموس شان رسالت کی خاطر ہم نے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’ہمیں اس بات کی بو آ رہی ہے کہ حکومت اس کوشش میں مصروف ہے کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی کرے۔ اس سلسلے میں چند ورزا سر گرم عمل ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے فعال کارکنان کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ تاہم ہم معاہدے پر پوری طرح عمل کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت بھی سمجھ لے کہ معاہدے کی خلاف ورزی کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ ہم ہر وقت اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭